وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ
ہم زبور میں پندو نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے (١) (ہی) ہونگے
ف 12۔ ” ٱلذِّكۡرِ “ سے مراد لوح محفوظ ہے اور بعض نے ” توارۃ“ مراد لی ہے اور بعض نے اسے اس کی لفظی یعنی ” نصیحت“ میں لیا ہے۔ (شوکانی) ف 13۔ یہاں ” ٱلۡأَرۡضَ “ سے کونسی زمین مراد ہے اس میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ بعض علما نے بہشت کی زمین مراد لی ہے کیونکہ دوسری آیت میں جنت کے متعلقİ وَأَوۡرَثَنَا ٱلۡأَرۡضَĬ فرمایا ہے۔ یعنی جس نے ہمیں زمین یعنی جنت کا وارث بنایا۔ (زمر : 74) گویا یہ اہل ایمان کے حق میں ایک بشارت اخروی ہے جیسے فرمایا İ وَٱلۡعَٰقِبَةُ لِلۡمُتَّقِينَĬ (اعراف:128) مگر اکثر علما نے اسے بشارت دنیوی پر محمول کیا ہے۔ پھر بعض نے کافر قوموں کی سرزمین مراد لی ہے اور بعض نے ” بیت المقدس“ کی فتح۔ چنانچہ حضرت عمر (رض) کی خلافت میں یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے سورۃ نور آیت 55۔ (شوکانی و ابن کثیر)