قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ
ہم نے فرما دیا اے آگ! تو ٹھندی پڑجا اور ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے سلامتی (اور آرام کی چیز) بن جا۔
ف 3۔ یعنی جب سب کی رائے یہی ٹھہری کہ آگ کا آلائو تیار کرکے ابراہیم ( علیہ السلام) کو اس میں پھینک دیا جائے اور پھر واقعی انہوں نے اپنے اس ماراوہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ابراہیم کو آگ میں پھینک دیا تو ہم نے آگ کو حکم دیا… ف 4۔ آگ کو صرف ٹھنڈی ہوجانے ہی کا حکم نہیں دیا کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو تکلیف نہ ہو بلکہ ٹھنڈی ہوجانے کے ساتھ راحت رساں ہوجانے کا بھی حکم دیا۔ کذا قابل ابن عباس (رض) وابوالعالیہ (ابن کثیر) حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو آگ میں ڈال دیا گیا مگر اللہ تعالیٰ نے خرق عبادت کے طور پر ان کو بچالیا۔ اس مقام پر مفسرین نے بہت سی حکایات نقل کی ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ انہوں نے آگ کا بہت بڑا الائو تیار کیا جس کا طول 08 ذراع اور عرض 04 ذراع تھا اور منجنیق کے ذریعے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو آگ میں پھینکنے لگے تو حضرت جبریل ( علیہ السلام) اور دوسرے فرشتوں نے اپنی خدمات پیش کیں مگر حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے سب کے جواب میں یہی کہا : ” حسبی اللہ ونعم الوکیل“ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی عمر اس وقت چالیس برس کے قریب تھی اور انہوں نے فرمایا کہ : ” جو نعمتیں مجھ کو آگ کے اندر حاصل تھیں۔ وہ بعد میں حاصل نہ ہوئیں۔“ قتادہ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) آگ میں ڈالے گئے تو ہر جانور نے آگ بجھانے کی کوشش کی۔ سوائے وزغہ کے کہ وہ آگ کو دھونک رہا تھا اس بنا پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا ہے وغیرہ۔ مگر ان جزئیات کی صحت محل نظر ہے او۔ عموماً یہ روایات اسرائیلیات سے ماخوذ ہیں۔ واللہ اعلم (وزع گرگٹ) کے متعلق حضرت عائشہ (رض) سے بخاری میں جو حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ آنحضرت نے وزغ کو موذی جانور فرمایا مگر اس کے قتل کا حکم دیتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہیں سنا۔