فَرَجَعُوا إِلَىٰ أَنفُسِهِمْ فَقَالُوا إِنَّكُمْ أَنتُمُ الظَّالِمُونَ
پس یہ لوگ اپنے دلوں میں قائل ہوگئے اور کہنے لگے واقع ظالم تو تم ہی ہو (١)
ف 9۔ ظاہر ہے کہ حجرت ابراہیم نے یہ بات تعریض اور کنایہ کے طور پر فرمائی اور تنز کیا کہ تم تو ان بتوں کو نفع و نقصان کے مالک سمجھتے ہو تو اگر یہ بولتے ہیں تو خود انہی سے دریافت کرلو کہ انہیں توڑنے کا کام کس نے کیا ہے؟ مگر اس آیت میں حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کا یہ فرمانا کہ ” یہ کام ان کے بڑے بت نے کیا ہے“ اپنی ظاہری صورت کے اعتبار سے چونکہ جھوٹ ہے اس بنا پر نبی ﷺ نے اسے جھوٹ ہی کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے جیسا کہ بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے : ” ان ابراھیم لم یکذب غیر ثلاث“ کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے صرف تین موقعوں پر جھوٹ بولا ہے ایک ان کا کہنا کہ ” میں بیمار ہوں“ دوسرے اپنی بیوی سارہ کو اپنی بہن بتلانا، تیسرے ان کا کہنا کہ ” فعلہ کبیر ھم ھذا“ مگر اس حدیث میں بھی تعریض و کنایہ کو کذب سے تعبیر کرلیا گیا ہے اور عربی زبان میں اس قسم کا اطلاق جائزہ ہے۔ لہٰذا اس صحیح حدیث سے انکار کی ضرورت نہیں ہے۔ امام رازی (رح) نے اس آیت کے اور بھی تفسیری محل بیان کئے ہیں۔ واللہ اعلم ف 1۔ یعنی سمجھے کہ پتھر پوجنا کیا حاصل۔ (موضح) یا یہ کہ اپنے بتوں کی حفاظت نہ کرکے تم نے ظلم کیا ہے۔ (ابن کثیر)