سورة البقرة - آیت 246

أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِن كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلَّا تُقَاتِلُوا ۖ قَالُوا وَمَا لَنَا أَلَّا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِن دِيَارِنَا وَأَبْنَائِنَا ۖ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا آپ نے (حضرت) موسیٰ کے بعد والی بنی اسرائیل کی جماعت کو نہیں دیکھا (١) جب کہ انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ کسی کو ہمارا بادشاہ بنا دیجئے (٢) تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔ پیغمبر نے کہا کہ ممکن ہے جہاد فرض ہوجانے کے بعد تم جہاد نہ کرو، انہوں نے کہا بھلا ہم اللہ کی راہ میں جہاد کیوں نہ کریں گے؟ ہم تو اپنے گھروں سے اجاڑے گئے ہیں اور بچوں سے دور کردیئے گئے ہیں۔ پھر جب ان پر جہاد فرض ہوا تو سوائے تھوڑے سے لوگوں کے سب پھر گئے اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 7 اوپر کی آیتوں میں جہاد اور نفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا ہے اس کے بعد ان آیات میں بنی اسرائیل کی ایک قوم کا قصہ بنان کیا ہے جنہوں نے حکم جہاد کی مخالفت کی اس وجہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ظآلم ٹھہر۔ اس قصہ سے مقصد جہاد کی ترغیب ہے۔ الملا شاہ رفیع الدین نے اس کا ترجمہ سرداران قوم کیا ہے اور یہی انسب ہے۔ عموما مفسرین نے اس کے معنی اشراف اور ؤسا کیے ہیں۔ (ابن جریر۔ رازی۔) اصل میں ملاء کے معنی پر کردینے کے ہیں اور اشراف ورؤسا بھی اپنی ہیبت اور رعب سے انکھیں پھیر دیتے ہیں ہی اس یے ان کا ملا کہا جاتا ہے۔ رازی)