سورة طه - آیت 130

فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا ۖ وَمِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَىٰ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پس ان کی باتوں پر صبر کر اور اپنے پروردگار کی تسبیح اور تعریف بیان کرتا رہ، سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے، رات کے مختلف وقتوں میں بھی اور دن کے حصوں میں بھی تسبیح کرتا رہ (١) بہت ممکن ہے کہ تو راضی ہوجائے (٢)

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 2 یعنی آپ کے بارے میں آئے دن اول فول بکتے رہتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ آپ شاعر ہیں اور کبھی آپ کو جھوٹا کاہن جادوگر وغیرہ کلمات سے یاد کرتے ہیں۔ آپ اس کی کوئی پروا نہ کیجیے بلکہ صبر یعنی تحمل و برداشت سے کام لیجیے۔ ف 3 یعنی ظہر کی نماز کیونکہ وہ آدھا دن گزر جانے کے بعد بقیہ آدھے دن کے کنارے پر ہوتی ہے اس طرح اس آیت میں تمام نمازوں کے اوقات کی طرف اشارہ آگیا جن کی وضاحت اور تعیین حدیث و سنت سے ہی ہو سکتی ہے۔ یہ آیت قرآن کی ان متعدد آیات میں سے ہے جن میں صبر کے پہلو بہ پہلو نماز کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے۔ کیونہ نماز ہی وہ چیز ہے جس سے انسان میں صبر کی طاقت پیدا ہوتی ہے۔ (شوکانی، ابن کثیر) ف 4 اشارہ ہے اس طرف کہ آپ کو مقام محمود حاصل ہوجیسے کہ سورۃ بنی اسرائیل میں نماز کا حکم دینے کے بعد فرمایا گیا، عسی ان یبعنک ربک مقاماً محموداً شاید (یعنی یقیناً) آپ کو آپ کا رب مقام محمود پر پہنچا دے گا (آیت 79) شاہ صاحب لکھتے ہیں : یعنی امت کو مدد ہوگی۔ دنیا میں اور بخشش گناہوں کی آخرت میں تیری سفارش سے حدیث میں ہے کہ اہل جنت کو بھی راضی کیا جائے گا اور ان کو خوشخبری دی جائے گی احل علیکم رضوانی فلا استخط علیکم بغلہ ابداً (ابن کثیر ۔ کبیر)