إِذْ تَمْشِي أُخْتُكَ فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ مَن يَكْفُلُهُ ۖ فَرَجَعْنَاكَ إِلَىٰ أُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ ۚ وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّيْنَاكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنَّاكَ فُتُونًا ۚ فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِي أَهْلِ مَدْيَنَ ثُمَّ جِئْتَ عَلَىٰ قَدَرٍ يَا مُوسَىٰ
(یاد کر) جبکہ تیری بہن چل رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ اگر تم کہو تو میں بتادوں جو اس کی نگہبانی کرے (١) اس تدبیر سے ہم نے تجھے تیری ماں کے پاس پہنچایا کہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ غمگین نہ ہو، اور تو نے ایک شخص کو مار ڈالا تھا (٢) اس پر بھی ہم نے تمہیں غم سے بچا لیا، غرض ہم نے تجھے اچھی طرح آزما لیا (٣)۔ پھر تو کئی سال تک مدین کے لوگوں میں ٹھہرا رہا (٤) پھر تقدیر الٰہی کے مطابق اے (٥) موسٰی! تو آیا۔
ف 4 ہوا یہ کہ فرعون کے گھر والوں نے حضرت موسیٰ کو اٹھا لیا لیکن جب اسے دودھ پلانے کے لئے دایائوں کا انتظام کیا گیا تو وہ کسی بھی دایہ کا دودھ پلانے کے لئے دایائوں کا انتظام کیا گیا تو وہ کسی بھی دایہ کا دودھ پینے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ جیسے فرمایا :” وحرمنا علیہ المراضع من قبل اس سے پہلے ہم نے ان پر تمام دوجھ پلانے والیوں کو حرام کردیا تھا۔ (قصص :12) اس موقع پر ان کی بہن وہاں پہنچی اور یہ منظر دیکھ کر فرعون اور اس کی بیوی حضرت آسیہ سے کہنے لگی۔ ف 5 بیچ کی تفصیل چھوڑدی گی ہے کہ فرعون کے گھر والوں نے رضامندی ظاہر کردی اور حضرت موسیٰ کی بہن گھر آئی اور اپنی والدہ کو ساتھ لے کر فرعون کے ہاں پہنچ گئی انہوں نے جونہی حضرت موسیٰ کے منہ سے اپنی چھاتی لگائی حضرت موسیٰ نے دودھ پینا شروع کردیا۔ اس طرح حضرت موسیٰ اپنی والدہ کے پاس پہنچ گئے۔ نظم قرآن پر غور کرنے سے یہ تفصیل خودبخود ذہن میں آجاتی ہے۔ ممکن ہے اس کے بعد حضرت موسیٰ کو اپنے گھر لے آئی ہوں تاکہ فرعون کی طرف سے بطور دایہ مامور ہو کر شاہانہ اعتزاز و اکرام کے ساتھ بچہ کی تربیت کرتی رہیں۔ واللہ اعلم (ابن کثیر) ف 6 یہ پورا قصہ سورۃ قصص (رکوع 5، 6) میں بیان ہوا ہے اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جوان ہونے کے بعد ایک روز حضرت موسیٰ شہر میں داخل ہوئے۔ وہاں ان کے ہاتھ سے ایک قبطی مارا گیا۔ حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اور اللہ تعالیٰ نے معاف بھی فرما دیا۔ مگر ڈرتے رہے کہ فرعون کے سپاہیوں کے ہاتھوں پکڑے نہ جائیں اللہ تعالیٰ نے اس غم و فکر سے انہیں نجات دی اور مصر سے نکال کر بدین میں پہنچا دیا جہاں ایک بزرگ کی لڑکی سے ان کا نکاح ہوا۔ پھر وہاں وہ دس سال رہے پھر اپنے بیوی بچوں کو لے کر مدین سے مصر روانہ ہوئے۔ ف 7 یعنی خوب اچھی طرح سے پرکھا تاکہ تمہارا خلاص نکھر کر سامنے آجائے۔ حافظ ابن کثیر نے حدیث الفتون کو بطلولہ بتایا ہے جس کا اکثر حصہ اسرائیلیات سے ماخوذ ہے (ابن کثیر) ف 8 یعنی اب اس عمر کو پہنچ کر تم اس وقت آئے ہو جس کے متعلق میرا فیصلہ تھا کہ اس میں تمہیں اپنی ہمکلامی اور نبوت سے سرفراز کروں گا۔ ہوسکتا ہے اس حد سے مراد چالیس سال عمر ہو۔ (شوکانی)