وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ۚ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
طلاق والی عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں (١) انہیں حلال نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو پیدا کیا ہو چھپائیں (٢) اگر انہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو، ان کے خاوند اس مدت میں انہیں لوٹا لینے کے پورے حقدار ہیں اگر ان کا ارادہ اصلاح کا ہو (٣) اور عورتوں کو بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ (٤) ہاں مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے اللہ تعالیٰ غالب ہے حکمت والا ہے۔
ف 3 مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی خاوند جماع کے بعد اپنی عورت کو طلاق دے اور اسے حیض نہ آتا ہو تو اس کے لیے عدت تین ماہ ہے اور اگر حاملہ ہو تو وضح حمل۔ (دیکھئے سورت الطلاق آیت 4) اگر جماع سے پہلے ہی طلاق ہوجائے تو اس پر کوئی عدت نہیں ہے۔ (دیکھئے آیت 237) پس اس آیت میں المطلقات سے ان عورتوں کو عدت کا بیان کرنا مقصو ہے جن سے خاوند صحبت کرچکے ہیں اور ہو حاملہ نہ ہوں اور ان کو حیض بھی آتا ہو تو ان کی عدت تین طہر یا تین حیض ہے۔ ابن کثیر۔ شوکانی) قردء کا لفظ جمع ہے اور اس کا واحد قوء ہے اور یہ طہر اور حیض دونوں پر بو لا جاتا ہے گو از روئے دلائل اول حج ہیں مگر فتوی دونوں پر صحیح ہے۔ (سلسلئہ بیان لیے دیکھئے سوررت الطلاق آیت 1) حضرت اسماء بنت عتت مقرر نہ تھی جب مجھے طلاق ہوئی تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر) ف 4 یعنی حمل یاحیض کے بارے میں عورت غلط بیانی سے کام نہ لے اور یاد رکھو باہمی حقوق ادا کرنے میں میاں بیوی دونوں برابر ہیں مگر مردکو عورت پر فضیلت حاصل ہے۔ (دیکھئے سورت النساء آیت 34) اس لیے عدت کے اندر اگر خاوند رجوع کرنا چاہیے تو عورت کا لا زما ماننا ہوگا۔ (ابن کثیر) ف حضرت عائشہ (رض) اور دیگر صحابہ کی روایات کے بموجب ابتدائے ہجرت میں جا ہلی دستور کے مطابق مرد عورتوں کو کئی کئی بار طلاق دیتے اور عدت کر اندر رجوع کرتے رہتے تھے۔ مقصد بیوی کو تنگ کرنا ہو تو تھا اس صورت حال کو روکنے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی کہ رجعی طلاق زیادہ سے زیادہ دو مرتبہ ہے اس کے بعد امساک بمعور یا تو عدت کے اندر رجوع کرنا ہے اور یا تسر یح با حسان یعنی حسن سلوک کے ساتھ تیسری طلاق دینا ہے۔ یہ تفسیر مر فوعا ثابت ہے اور ابن جریر نے اس کو ترجیح دی ہے۔ بعض نے اوا تسریح باحسان سے یہ مراد لیے ہے کہ دو طلاق کے بعد رجوع نہ کرے حتی کہ عدت گزارنے کے بعد وہ عورت خود بخود اس سے الگ ہوجائے (ابن جریر۔ ابن کثیر )