فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۗ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَىٰ ۖ قُلْ إِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ ۖ وَإِن تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
امور دینی اور دنیاوی کو۔ اور تجھ سے یتیموں کے بارے میں بھی سوال کرتے ہیں (١) آپ کہہ دیجئے کہ ان کی خیر خواہی بہتر ہے، تم اگر ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں، بدنیت اور نیک نیت ہر ایک کو اللہ خوب جانتا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا (٢) یقیناً اللہ تعالیٰ غلبہ والا اور حکمت والا ہے۔
ف 1 ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جب یہ آیت ان الذین یاکلون اموال الیتمی ظلما۔ نازل ہوئی تو تو جو لوگ یتیموں کے کفیل تھے وہ بہت ڈر گئے اور ان کے کھانے پینے کا نتظام بھی الگ کردیا پھر بعض اوقات یتیم کے لیے تیار کی ہوئی چیز اس کے کام نہ آتی تو ضائع ہوجاتی اس طرح کئی مشکلات پیش آنے لگیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اصل یتیموں کی بہتری اور ان کے مال کی اصلاح ہے لہذا اگر ان کے اموال کو ساتھ ملانے میں ان کی بہتری ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آخر یہ یتیم بچے تمہارے بھائی ہیں اگر کبھی تم نے ان کا اور انہوں نے تمہارا کچھ کھا پی لیا تو بھائیوں اور رشتہ داروں کے درمیان ایسا ہوتا ہی ہے اس پر لوگوں نے یتیموں کی کھانے پینے کی چیزوں کو پھر اپنے طعام و شراب کے ساتھ جمع کرلیا۔ (ابن جریر۔ ابن کثیر) نیز دیکھئے۔ (سورت اسرائیل آیت 34، الا نعام آیت 152)