وَتِلْكَ الْقُرَىٰ أَهْلَكْنَاهُمْ لَمَّا ظَلَمُوا وَجَعَلْنَا لِمَهْلِكِهِم مَّوْعِدًا
وہ بستیاں جنہیں ہم نے ان کے مظالم کی بنا پر غارت کردیا اور ان کی تباہی کی بھی ہم نے ایک میعاد مقرر کر رکھی تھی (١)۔
ف 4 مراد ہیں سباء، محمود، مدین اور قوم لوط کی تباہ شدہ بستیاں جن کی سرگزشت سے عرب کے تمام لوگ واقف تھے اور جن پر اپنے سفروں میں آتے جاتے قریش کا ہمیشہ گزر ہوتا تھا۔ ف 5 تو اے کفار قریش تمہیں بھی ڈرتے رہنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ آخر کار تمہارا بھی وہی حشر ہو جوان بستیوں کا ہوا۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : اوپر ذکر فرمایا کہ کافر اپنے مال و جاہ پر مغرور رہتے اور مسلمانوں کو ذلیل سمجھ کر آنحضرت سے کہتے کہ ان کو اپنے پاس نہ بٹھائو تو ہم بیٹھیں اس پر دو بھائیوں کا قصہ بیان فرمایا اور پھر دنیا کی مثال بیان کی اور بتایا کہ ابلیس اپنے غرور کے سبب ہی ہلاک ہوا۔ اب خضر اور موسیٰکا قصہ بیان فرما کر یہ سمجھایا کہ اللہ کے بندے اگر بہتر بھی ہوں تو بھی اپنے کو کسی سے بہتر نہیں سمجھتے۔ (کذا فی الموضح)