قُلِ ادْعُوا اللَّهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَٰنَ ۖ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا
کہہ دیجئے کہ اللہ کو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو تمام اچھے نام اسی کے ہیں (١) نہ تو تو اپنی نماز بہت بلند آواز سے پڑھ اور نہ بالکل پوشیدہ بلکہ اس کے درمیان کا راستہ تلاش کرلے (٢)۔
ف 10 مشرکین عرب کے ہاں خدا کے لئے اللہ کا نام تورائج تھا مگر وہ اس کے نام رحمن سے مانوس نہ تھے بلکہ وہ اس نام سے سخت وحشت کھاتے حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ ایک روز آنحضرتﷺ نے دعا میں فرمایا :” یا اللہ یا رحمٰن“ تو مشرکین کہنے لگے کہ اس بے دین کی طرف دیکھو ہمیں رومعبودوں کے پکارنے سے منع کرتا ہے اور خود رو معبودوں کو پکارتا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازمل فرمائی۔( ابن جریر) اللہ تعالیٰ کے اسماء کے حسنیٰ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ان میں حمد و ثناء اور تسبیح و تقدیس کے معانی مفہوم ہوتے ہیں۔ کذافی لکبیر (مزید دیکھیے سورۃ اعراف 180) ف 11 حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس زمانے میں نازل ہوئی جب نبی ﷺ مکہ میں چھپ کر رہتے تھے چنانچہ جب آپ اپنے صحابہ کو نماز پڑھاتے تو مشرکین قرآن کو اس کے اتارنے اور اس کے لانے والے کو گالیاں دیتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ بیچ کا لہجہ اختیار کیجیے تاکہ آپ کے ساتھی سن بھی سکیں اور مشرکین کو گالیاں دینے کا موقع نہ مل سکے۔ (بخاری مسلم) حضرت عائشہ نے اس آیت میں ’ ’صلاۃ“ سے مراد دعا لی ہے۔ (بخاری)