سورة الإسراء - آیت 58

وَإِن مِّن قَرْيَةٍ إِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ أَوْ مُعَذِّبُوهَا عَذَابًا شَدِيدًا ۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

جتنی بھی بستیاں ہیں ہم قیامت کے دن سے پہلے پہلے یا تو انھیں ہلاک کردینے والے ہیں یا سخت تر سزا دینے والے ہیں۔ یہ کتاب میں لکھا جا چکا ہے (١)۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 2 تباہ کرنے سے مراد بالکل غارت کردینا اور عذاب اتارنے سے مراد قحط بیماری یا جنگ وغیرہ میں مبتلا کرنا ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک ” قَرۡيَةٍ “ سے مراد ہر بستی ہے یعنی مومنوں کی ہو یا کافروں کی، اور ” اہلاک“ سے مراد طبعی ویرانی اور ” تعذیب“ سے کسی آفت وغیرہ میں مبتلا کرنا ہے اور ان کے نزدیک آیت کا مطلب یہ ہے کہ روئے زمین کی کوئی ایسی بستی نہیں جسے ہم قیامت سے پہلے پہلے یا تو طبعی موت بھیج کر ویران نہ کردیں یا کسی سخت آفت میں مبتلا نہ کردیں۔ بہرحال دونوں میں سے کوئی مطلب لیا جائے۔ مقصود کفار مکہ کو ڈرانا ہے کہ خواہ تم ہر طرح امن سے رہتے ہو مگر ایک نہ ایک دن تمہاری گرفت ہوگی۔ اس آیت میں ان نشانیوں کی طرف اشارہ ہے جو قیامت سے پہلے رونما ہونے والی ہیں۔ (ماخوذ از روح و شوکانی) ف 3 یعنی ہمارا حتمی اور اٹل فیصلہ ہے جسے کوئی طاقت نافذ ہونے سے نہیں رو سکتی۔