سورة الإسراء - آیت 57

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ ۚ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وہ اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زیادہ نزدیک ہوجائے وہ خود اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے خوف زدہ رہتے ہیں، (١) (بات بھی یہی ہے) کہ تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 1 یعنی اس کی عبادت اور اطاعت کر کے وسیلہ (تقرب الٰہی) چاہتے ہیں اور ان کی ساری تگ و دو اسی لئے ہے کہ اس بارے میں کون دوسروں سے آگے نکلتا ہے حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ” میرے لئے وسیلہ طلب کرو صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ وسیلہ کیا چیز ہے؟ اللہ تعالیٰ کا تقرب پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (فتح البیان) افسوس کہ آج کل اس امت کے مسلمان بھی اس شرک میں مبتلا ہیں۔ اولیاء و صلحاء پر امت، پیروں، بزرگوں اور شہیدوں سے وہی عقیدہ رکھتے ہیں جو مشرکین اپنے بتوں سے رکھتے تھے، ان کو حاجت روا اور صاحب تصرف سمجھتے ہیں اور ان کے نام کی نیازیں دیتے ہیں تاکہ وہ تکالیف کو دور کریں وغیرہ۔ (وحیدی)