سورة البقرة - آیت 202

أُولَٰئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّمَّا كَسَبُوا ۚ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے ان کے اعمال کا حصہ ہے اور اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 1 (یعنی بہت جلد اور لامحاسبہ ہونے ولا ہے) ذکر الی کا حکم دینے کے بعد دعا کی کیفیت بیان فرمائی اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے والے دو طرح کے لوگ ہوتے ایک وہ صرف دنیا کے طالب ہوتے ہیں ایسے لوگ آخروی نعمتوں سے یکسر محروم رہیں گے۔ (دیکھئے الشوری آیت 20) اور دوسرے وہ جو دنیا وآخرت دونوں کی بھلائی طلب کرتے ہیں۔ اصل کامیابی انہی لوگوں کی ہے۔ (رازی۔ شوکانی) دنیا کی بھلائی (حسنہ) میں صحت، دسعت رزق، علم دین اور عبادت الہی کی توفیق۔ الغرض سب نیک اعمال شام ہیں اور آخرت کی بھلائی میں دوزخ سے نجات جنت اور رضا الہی کا حصول حساب میں آسانی وغیرہ داخل ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز اور عام اوقات میں بھی یہ دعا بکثرت فرمایا کرتے تھے۔ فر الجملہ یہ ایک نہایت جامع دعا ہے متعدد احادیث میں اس کی ترغیب آئی ہے۔ طواف کے وقت رکن یمانی اور حجر اسود کے مابین یہ دعا مسنون ہے (ابن کثیر۔ روح المعانی)