سورة البقرة - آیت 197

الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ ۚ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ۗ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ ۚ وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

حج کے مہینے مقرر ہیں (١) اس لئے جو شخص ان میں حج لازم کرلے وہ اپنی بیوی سے میل ملاپ کرنے، گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑے کرنے سے بچتا رہے (١) تم جو نیکی کرو گے اس سے اللہ تعالیٰ باخبر ہے اور اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو، سب سے بہتر توشہ اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے (٢) اور اے عقلمندو! مجھ سے ڈرتے رہا کرو۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 4: ﴿ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ﴾ کی یہی تشریح حضرت عبداللہ بن عمر (رض) اور دیگر صحابہ وتابعین سے مروی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حج کا احرام بھی ماہ شوال سے پہلے نہ باندھا جائے جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں) ‌مِنَ ‌السُّنَّةِ ‌أَنْ ‌لَا يُحْرِمَ بِالْحَجِّ إِلَّا فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ (۔ کہ سنت یہ ہے کہ حج کا احرام حج کے مہینوں کے سوا دوسرے مہینوں میں نہ باندھا جائے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ کا یہ قول مرفوع حدیث کے حکم میں ہے جسکی تائید حضرت جابر (رض) کی روایت سے بھی ہوتی ہے جو مرفوع اور موقوف دونوں طرح سے مروی ہے اور یہی مسلک صحیح اور راحج ہے۔ (شوکانی، ابن کثیر) مسئلہ:۔ عمرہ تو سارے سال میں جب چاہے کرسکتا ہے مگر حج کے لیے یہ مہینے مقرر ہیں اور عشرہ ذی الحجہ میں اس کے مناسک اتمام پاتے ہیں اور یوم النحر کی رات گزرجانے کے بعد حج ختم ہوجاتا ہے۔ (ابن کثیر) مسئلہ: حج کا احرام تو مکہ کے اندر سے ہی باندھا جاسکتا ہے مگر عمرے کے احرام کے لیے باہر حل میں جانا ضروری ہے اور اس میں آفاقی اور مکی دونوں برابر ہیں ( مؤطا) ف 5 : حج کو اپنے اوپر لازم کر نایہ ہے کہ حج کی نیت کے ساتھ احرام باندھ لے اور زبان سے لبیک کہے۔ ( ابن کثیر) ف 6 : یعنی حج میں یہ سب باتیں حرام ہیں۔ رَفَثَ (شہوت کی باتوں) سے جماع اور تمام وہ چیزیں مراد ہیں جو جماع کی طرف مائل کرنے والی ہوں اور فُسُوقَکا لفظ ہر قسم کے گناہ کو شامل ہےاور جِدَالَسے لڑائی جھگڑا مراد ہے،حدیث میں ہے کہ جس نے حج کیا اور اس میں رفث وفسق نہیں کیا تو وہ گنا ہوں سے اس طرح پاک ہوگیا جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے وقت تھا۔ (ابن کثیر) ف 3 : یہ معنی ’’ التَّقْوَى ‘‘ کے لغوی معنی کی بنا پر ہیں۔ (روح المعانی) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اہل یمن حج کو نکلتے تو کوئی زاد راہ ساتھ نہ لیتے اور اپنے آپ کو ’’متوکل ‘‘کہتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی زاد راہ ساتھ نہ لینا اور اپنے آپ کو تکالیف میں ڈالنا کوئی نیکی نہیں ہے بلکہ بہترین زادراہ تقوی یعنی منہیات سے بچنا ہے۔ ابن جریر۔ (ابن کثیر )