وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِن كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا ثُمَّ لَا يُؤْذَنُ لِلَّذِينَ كَفَرُوا وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ
اور جس دن ہم ہر امت میں سے گواہ کھڑا کریں گے (١) پھر کافروں کو نہ اجازت دی جائے گی اور نہ ان سے توبہ کرنے کو کہا جائے گا۔
ف 5 یعنی خوب دبانتے ہیں کہ یہ ت مام نعمتیں اللہ تعالیٰ ہی کی ذات عنایت فرما رہی ہے مگر جب عملاً شکر گزاری کا وقت آتا ہے تو سب بھول جاتے ہیں اور بخرک کرنے لگتے ہیں۔ گویا دل میں نعمتوں کا متوار اور اپنے عمل سے انکار کرتے ہیں۔ ف 6 ان کا پیغمبر اللہ کے سامنے کو ہوگا اور ان کے حق میں ایمان و تصدیق کی گواہی دے گا۔ (بشرطیکہ یہاں لا کر پیروی کی ہوگی اور اگر انحراف کیا ہوگا تو ان کے خلاف کفر و تکذیب کی گواہی دے گا۔ اس میں منکرین نعمت کے لئے وعید ہے۔ شوکانی ف 7 یعنی ان کا مجرم ہونا اتنا واضح ہوگا کہ ان کے پاس کوئی عذر یا بحث نہیں ہوگی جس کے بیان کرنے کی اجازت دی جائے۔ ف 8 یا نہ انہیں (اپنے رب کو) راضی کرنے کا موقع دیا جائے گا یعنی نیک عمل کر کے کیونکہ آخرت عمل کا کفر نہیں ہے عمل کا گھر دنیا ہے اور دنیا کی طرف پلٹنا ممکن نہیں۔ (قرطبی)