وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّىٰ يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ ۖ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ ۗ كَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ
انہیں مارو جہاں بھی پاؤ اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے اور (سنو) فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے (١) اور مسجد حرام کے پاس ان سے لڑائی نہ کرو جب تک کہ یہ خود تم سے نہ لڑیں، اگر یہ تم سے لڑیں تو تم بھی انہیں مارو (٢) کافروں کا بدلہ یہی ہے۔
ف 7 : چنانچہ آنحضرت (ﷺ) نے جب مکہ فتح کیا تو اس آیت کے تحت حرم مکہ سے ہر شخص کو نکال دیا جو اسلام نہ لایا تھا اور پھر حرم مدینہ سے بھی یہود کو جلا وطن کردیا اور فرمایا : (لَا يَجْتَمِعُ دِينَانِ فِي جَزِيرَةِ الْعَرَبِ)۔ کہ اب جزیرۃعرب میں دودین اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ (شوکانی۔ کبیر) ف 8 : یعنی مکہ کے حرم یا ماہ حرام میں مقابلہ بے شک جرم ہے مگر الفتنہ یعنی شرک اور دین سے بر گشتہ کرنے کے لیے مسلمانوں کو ظلم وستم کا نشانہ بنانا اس مقاتلہ سے بھی جرم ہے لہذا کسی اند یشہ کے بغیر مشرکین کو قتل کرو گو یا اس آیت میں بھی حرم مکہ یا شہر حرم میں مقاتلہ کی مشروط اجازت دی ہے۔( کبیر۔ فتح القدیر) ف 1 : یعنی سرزمین مکہ بے شک حرم یعنی جائے امن ہے اس میں قتل وقتال ممنوع ہے مگر جب ظلم وتشدد کی ابتدا ان (کفار) کی طرف سے ہوئی ہے تو اب لڑائی جائز ہے۔ پھر بھی فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت (ﷺ) نے حکم دیا کہ اسی کو قتل کرو جو ہتھیار اٹھائے اور باقی سب کے لیے امن عام کا اعلان فرمادیا۔ (ابن کثیر۔ بخاری وغیرہ )