وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو، نہ حاکموں کو رشوت پہنچا کر کسی کا کچھ مال ظلم و ستم سے اپنا کرلیا کرو، حالانکہ تم جانتے ہو (١)۔
ف 3 جو مال بھی جائز طریقے سے حاصل کیا جائے خواہ مالک کی راضامندی بھی شامل ہو تو وہ باطل (ناحق) طرق سے کھانا ہے۔ مثلا زنا کی اجرت نجومی کی فیس۔ شراب کی فروخت۔ لاٹری یا جوئے کے ذریعہ کمائی یا گانے بجانے اجرت۔ العرض تمام ناجائزومسائل اکل بالبابل کے تحت آجاتے ہیں۔ اسی طرح رشوت دیکر یا حکام کے سامنے جھوٹی گواہیاں پیش کر کے کسی کے مال پر قانونی تصرف حاصل کرلینا بھی حرام ہے محض حاکم کے فیصلہ سے کوئی حرام مال حلال نہیں ہوجاتا۔ حضرت ام سلمہ (رض) سے ررایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر کسی فریق کے دلائل سن میں اس کے حق میں فیصلہ کردوں تو میرے فیصلہ سے ایک کے لیے دوسرے کا مال حلال نہیں ہوجائے گا۔ اسے یہ سمجھنا چاہیے کہ اس نے آگ کا ایک ٹکڑا حاصل کیا ہے۔ بخاری ومسلم) اس حدیث سے معلم ہوا کہ ظاہری بیانات کی بنا پر ناحق فیصلہ سے حرام چیز حلال نہیں ہوجاتی۔ صحابہ، تابعین اور ائمہ کرام یہی مذہب ہے۔ امام ابو حنیفہ سے ایک قول اس کے خلاف بیان کیا جاتا ہے۔ _(قرطبی)