وَقَالَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا عَبَدْنَا مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ نَّحْنُ وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ ۚ كَذَٰلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
مشرک لوگوں نے کہا اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادے اس کے سوا کسی اور کی عبادت ہی نہ کرتے، نہ اس کے فرمان کے بغیر کسی چیز کو حرام کرتے۔ یہی فعل ان سے پہلے لوگوں کا رہا۔ تو رسولوں پر تو صرف کھلم کھولا پیغام پہنچا دینا ہے (١)
ف 5 کفار اپنے شرک اور اعمال کفر مثلاً بحیرہ سائبہ اور وصیلہ وغیرہ کی حرمت کے جواز کے لئے اللہ تعالیٰ کی مشیت کا سہارا لیتے اور اس بہانے سے رسالت پر طعن کرتے اور کہتے کہ اگر یہ شرک اور تحریمات اللہ کی مرضی کے خلاف ہوتے تو ہم نہ کرتے اور ہمیں روک دیا جاتا۔ جب اللہ نے نہیں روکا تو معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ ہم اس کی مشیئت کے تحت کر رہے ہیں مگر اولاً تو یہ بات ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ان کے اس شرک اور اعمال پر راضی ہوتا تو ان سے منع کرنے کے لئے نہ پیغمبر بھیجتا اور نہ کتابیں نازل کرتا۔ جب مسلسل پیغمبروں کے ذریعہ ان باتوں سے منع کیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ سب چیزیں اس کی مرضی کے خلاف ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر گرفت نہ ہونے کو سند جواز نہیں بنا سکتے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہلت ہے مزید دیکھئے سورۃ انعام آیت 47