وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ
اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے (١)۔
ف 1 اس کی عبادت پر قائم رہیں اور موت کو یقین اس لئے کہا ہر متنفس کے لئے اس کا آنا ضروری ہے۔ (روح) قرآن میں بعض دوسرے مقامات پر بھی ” یقین“ کا لفظ موت کے معنی میں استعمال ہوا ہے جیسے ” حتی اتانا الیقین“ یہاں تک کہ ہمیں یقین آ پہنچا مدثر آیت 47) اس لئے سب قابل ذکر مفسرین نے اس آیت میں یقین کو بمعنی موت لیا ہے۔ بعض جاہل اور بے عمل پیرا اس آیت کی رو سے کہتے ہیں کہ عبادت کرتے کرتے جب یقین حاصل ہوجائے تو پھر عبادت کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے اپنے آپ کو نماز، روزہ عبادات سے مستثنیٰ قرار دے لیتے ہیں۔ یہ تفسیر کتاب اللہ کے ساتھ تلعب کے مترادف ہے۔ کیا یہ جس یقین کا نام لیتے ہیں آنحضرت کو حاصل نہ ہوسکا کہ آپ آخر وقت تک نماز، روزہ اور دیگر عبادات کی پابندی کرتے رہے۔ بہرحال آیت میں یقین سے یقین قلبی مراد لینا الحاد سے خالی نہیں۔ (کذافی الروح)