سورة البقرة - آیت 183

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

اے ایمان والو تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو (١

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 5؛ اس آیت میں روزے کی فرضیت کا بیان ہے’’ اگلے لوگوں‘‘ سے جمیع امم سابقہ یا خاص کر یہود ونصاری مراد ہیں اور ﴿كَمَا كُتِبَ﴾میں تشبیہ فرض ہونے کے اعتبار سے ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس تشبیہ میں وقت اور ہیئت کا اعتبار بھی مقصود ہو کیونکہ بعض آثار اور ابن حنظلہ کی مر فوع روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ ماہ رمضان کے روزے پہلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔(قرطبی، ابن کثیر) روزے کی یہ فرضیت 2 ھ میں نازل ہوئی اور روزے نے موجودہ ہیئت بتدریج اختیار کی ہے ہجرت کے بعد مدینہ پہنچ کر آنحضرت (ﷺ) حسب سابق عاشورہ اور ہر ماہ تین دن کا روزہ کھتے رہے حتی کہ رمضان کے روزے فرض ہوگئے (ابن کثیر) الصیام والصوم کے لغوی معنی ہر اس چیز سے رک جانے کے ہیں جو نفس کو مرغوب ہو۔ (مفردات) اور شریعت میں روزہ کی نیت صبح صادق سے سورج کے غروب ہونے کے بعد تک مفطرات ثلاثہ یعنی کھانے پینے اور جماع سے رکے رہنے کا نام روزہ ہے۔ ﴿ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُونَ ﴾ یہ روزے کی حکمت بیان فرمادی ہے کہ اسلامی روزے کا مقصد تعذیب نفس نہیں بلکہ دل میں تقوی یعنی ’’جی کو روکنے‘‘ کی عادت پیدا کرنا ہے یہی وجہ ہے کہ حدیث میں الصِّيَامُ جُنَّةٌآیا ہے کہ روزہ گناہوں سے بچنے کے لیے ڈھال ہے اور صحیحین میں ہے کہ آنحضرت (ﷺ) نے ماہ رمضان کو’’ شھرالصبر ‘‘فرمایا ہے یعنی نفس پر ہر طرح کی بندش کا مہینہ۔ (ترغیب) اور فرمایا کہ جو شخص روزہ ر کھ کر دوسرے کی غیبت کرتا ہے یا جھوٹ بولتا ہے اس کا روزہ نہیں ہے۔ (ترغیب )