يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
اے ایمان والو تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو (١)۔
ف 5 اس آیت میں روزے کی فرضیت کا بیان ہے اگلے لوگوں سے جمیع امم سابقہ یا خاص کر یہود ونصاری مراد ہیں اور کما کتب میں تشبیہ فرض ہونے کے لیے اعتبار سے ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس تشبیہ وقت اور ہیئت کا اعتبار بھی مقصود ہو کیونکہ بعض آثار اور ابن حنظلہ کی مر فوع روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ ماہ رمضان کے روزے سے پہلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔) قرطبی، ابن کثیر) روزے کی فرضیت 2 ھ میں نازل ہوئی اور روزے نے موجود ہیئت بتدریج اختیار کی ہے ہجرت کے بعد مدینہ پہنچ کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حسب سابق عاشورہ اور ہر ماہ تین دن کا روزہ کھتے رہے حتی کہ رمضان کے روزے فرض ہوگئے ابن کثیر) الصیام والصوم کے لغوی معنی ہر اس چیز سے رک جانے کے ہیں جو نفس کو مرغوب ہو۔ (مفردات) اور شریعت میں روزہ کی نیت سے صبح صادق سے سورج کے غروب ہونے کے بعد تک مفطرات ثلاثہ یعنی کھانے پینے اور جماع) سے رکے ہنے کا نام روزہ ہے لعلکم تتقون یہ روزے کی حکمت بیان فرمادی ہے کہ اسلامی روزے کا مقصد تعذیب نفس نہیں بلکہ دل میں تقوی یعنی جی کو روکنے کی عادت پیدا کرنا ہے یہی وجہ ہے کہ حدیث میں الصیام جنتہ آیا ہے کہ روزہ گناہوں سے بچنے کے لیے ڈھال ہے اور صحیحین میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماہ رمضان کو شھرالصبر فرمایا ہے یعنی نفس پر ہر طرح کی بندش کا مہینہ۔ (ترغیب) اور فرمایا کہ جو شخص روزہ کھ کر دوسرے کی غیبت کرتا ہے یا جھوٹ بولتا ہے اس کا روزہ نہیں ہے۔ (ترغیب )