سورة الحجر - آیت 76

وَإِنَّهَا لَبِسَبِيلٍ مُّقِيمٍ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

یہ بستی راہ پر ہے جو برابر چلتی رہتی (عام گزرگاہ) ہے (١

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 8 یعنی جو قافلے حجاز سے شام یا عراق سے مصر جاتے ہیں یہ بستی ان کے راستے میں پڑتی ہے۔ مگر لوگ ہیں کہ اس میں تباہی کے آثار دیکھ کر کوئی عبرت حاصل نہیں کرتے۔ جدید محققین کا خیال ہے کہ یہ بستی بحرمیت کے (جسے بحر لوط بھی کہتے ہیں) جنوب مشرق میں واقع تھی بلکہ اس زمانہ میں اردن کی حکومت بحرمیت کے جنوبی حصہ سے اس کے تباہ شدہ آثار برآمد کرنے کی بھی کوشش کر رہی ہے۔ (تنبیہ) اس عذاب کے وقت کے متعلق تین الفاظ آئے ہیں ” مشرقین، مصبحین اور بکرۃ“ صبح سے مراد صبح عرفی ہو تو یہ اشراق و بکرۃ کے ساتھ جمع ہو سکتی ہے بعض نے لکھا ہے کہ صبح یعنی طلوع فجر سے عذاب شروع ہوا اور اشراق یا بکرة تک ان کا قصہ تمام کردیا گیا۔ نیز قرآن نے تین طرح کے عذاب کا ذکر کیا ہے۔ پہلے صیحةکا عذب۔ آیا پھر ان کی بستیوں کو الٹ دیا گیا۔ اور سب سے آخر میں ان پر پتھروں کا مینہ برسایا گیا۔ (کذافی القرطبی)