سورة ابراھیم - آیت 4

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ۖ فَيُضِلُّ اللَّهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ہم نے ہر ہر نبی کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا ہے تاکہ ان کے سامنے وضاحت سے بیان کر دے (١) اب اللہ جسے چاہے گمراہ کر دے اور جسے چاہے راہ دکھا دے، وہ غلبہ اور حکمت والا ہے (٢)۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 4۔ اور وہ چھی طرح سمجھ سکیں اور ان پر حجت قائم ہوسکے۔ آنحضرتﷺ سے قبل جتنے پیغمبر بھیجئے گئے وہ ایک ایک قوم کی طرف بھیجئے گئے اور ہر قوم کی طرف اسی قوم کا ایک فرد بھیجا گئے اور ہر قوم کی طرف اسی قوم کا ایک فرد بھیجا گیا جو اسی کی زبان بولتا تھا۔ آنحضرتﷺ کی بعثت گو عام تھی اور قیامت تک کے تمام انسانوں بلکہ تما جن و انس کے لئے تھی لیکن چونکہ آپﷺ کی قوم جس میں آپﷺ پیدا ہوئے اور جو آپﷺ کی اولین مخاطب تھی عربی زبان بولتی تھی اس لئے طبعی ترتیب کے مطابق آپﷺ نے اللہ کا پیغام سب سے پہلے عربی زبان میں ان کو پہنچایا۔ مقصد یہ تھا کہ پہلے یہ قوم اس پیغام کو سمجھے اور پھر اسے دوسروں تک پہنچائے اور سمجھانے کا ذریعہ بنے۔ اگر قرآن تمام زبانوں میں نازل کیا جاتا تو تنازع اور اختلاف اور تحریف احکام کے دروازے کھل جاتے اور اسلامی دعوت کے لئے کسی مقام پر بھی مرکزیت قائم نہ ہوسکتی۔ (از روح)۔ ف 5۔ یعنی گوہر پیغمبر اپنی دعوت اسی زبان میں پیش کرتا ہے جسے ساری قوم سمجھتی ہے تاہم ہدایت و ضلالت کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہی میں پڑا رہنے دیتا ہے۔ آج بھی بہت سی عجمی قومیں اسلام کی حامی اور مددگار نظر آتی ہیں اور عرب ممالک باوجود عربی زبان کی خدمت و اشاعت کے اسلام سے منحرف اور دور ہو رہے ہیں۔