وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً ۚ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ
ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا (١) کسی رسول سے نہیں ہوسکتا کہ کوئی نشانی بغیر اللہ کی اجازت کے لے آئے (٢) ہر مقررہ وعدے کی ایک لکھت ہے (٣)
ف 12۔ آنحضرت ﷺ کی نبوت پر مشرکین یہ بھی اعتراض کرتے کہ یہ عجیب پیغمبر ہیں کہ دوسرے انسانوں کی طرح عورتوں سے نکاح کرتے ہیں حالانکہ پیغمبر کو ان باتوں سے کیا واسطہ بعض روایات میں ہے کہ یہود نے آنحضرت ﷺ کے کثرت ازواج پر اعتراض کیا۔ ّ(لیس ھمہ الا النساء)۔ اس آیت میں اسی اعتراض کا جواب ہے کہ نبوت عورتوں سے نکاح کے منافی نہیں ہے۔ آپﷺ سے قبل اللہ کے جتنے پیغمبر ہو گزرے ہیں سب بشر ہی تھے اور ان میں اکثریت پیغمبروں کے ہے جو بیوی بچے رکھتے تھے لہٰذا اعتراض سرے سے لغو ہے۔ حدیث میں ہے؟ نکاح کرنا بھی سنن انبیاء میں سے ہے۔“ نیز فرمایا کہ جو میری اس سنت سے اعراض برتے لگا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ (روح۔ ابن کثیر)۔ ف 1۔ مخالفین کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اگر یہ (محمد ﷺ) واقعی اللہ کے سچے پیغمبر ہیں توہ ہماری طلب کے مطابق معجزے اور نشانیاں کیوں نہیں لاتے۔ ان کے جواب میں فرمایا کہ پہلے پیغمبر جتنے معجزے لائے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی مشیت اور حکم سے لائے ہیں۔ اب اگر اللہ کا حکم ہوگا تو وہ اپنے پیغمبر سے بھی معجزے کا صدور کرادیگا ورنہ پیغمبر ہیں از خود یہ ہمت کہاں ہے کہ اپنی مرضی سے جو معجزہ چاہے ظاہر کردے۔ یہی حال اولیا کی کرامتوں کا ہے۔ کہ وہ اپنی مرضی سے کرامت دکھلانے پر قادر نہیں ہوتے۔ (وحیدی) یہاں آیت سے مراد قرآن کی آیت بھی ہوسکتی ہے جس میں ان کی مرضی کے مطابق کوئی حکم نازل ہوجائے۔ (ابن کثیر)۔ ف 2۔ اسی طرح ہر زمانہ کے لئے معین احکام ہوتے ہیں جو مرورِ زمانہ کے ساتھ تقاضائے حکمت کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔ اس میں ان کے نسخے اعتراض کا جواب ہے۔