اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ وَفَرِحُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مَتَاعٌ
اللہ تعالیٰ جس کی روزی چاہتا ہے بڑھاتا ہے اور گھٹاتا ہے (١) یہ دنیا کی زندگی میں مست ہوگئے (٢) حالانکہ دنیا آخرت کے مقابلے میں نہایت (حقیر) پونجی ہے (٣)۔
ف 8۔ یعنی دنیا میں رزق کی فراوانی یا تنگی کوئی معیار نہیں ہے جس کے لحاط سے کسی شخص کے اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ یا غیر پسندیدہ ہونے کا فیصلہ کیا جائے۔ بسا اوقات وہ کافر کو خوب سامان عیش دیتا ہے اور مومن پر تنگدستی وارد کرتا ہے تاکہ دونوں کی آزمائش کی جائے۔ مومن اپنے صبر وشکر کی وجہ سے آخرت میں بلند درجات پاتا ہے اور کافر ناکام رہتا ہے۔ اس لئے آخرت میں اس کا ٹھکانا برا ہوتا ہے لہٰذا گمراہ لوگوں کی ان بداعمالیوں کے باوجود ان کے عیش و عشرت سے کسی کو دھوکا نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ محض مہلت ہے جو کافر کو دنیا میں دی جاتی ہے۔ (روح)۔ ف 9۔ یا ایک تھوڑی دیر کا سامان۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک چٹائی پر آرام فرما رہے تھے جب اٹھے تو آپو کے پہلوئوں پر چٹائی کا نشان تھا ہم نے عرض کیا : کہا ہم آپﷺ کے لئے ایک نم بستر بنا دیں؟ فرمایا کیا کرنا ہے میں تو دنیا میں ایک راہ چلتے مسافر کی طرح ہوں جس نے ایک درخت کے نیچے تھوڑی دیر کے لئے آرام کیا اور پھر آگے چل دیا۔ (ترمذی)