لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِّن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۗ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ ۚ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ
اس کے پہرے دار (١) انسان کے آگے پیچھے مقرر ہیں، جو اللہ کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں۔ کسی قوم کی حالت اللہ تعالیٰ نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے (٢) اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کی سزا کا ارادہ کرلیتا ہے تو وہ بدلہ نہیں کرتا اور سوائے اس کے کوئی بھی ان کا کارساز نہیں۔
ف 13۔ یعنی خدا كے حکم کی بنا پر اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ دو فرشتے دائیں بائیں اس کے نیک اور بد اعمال کا ریکارڈركھنے کے لیے مقرر ہیں ۔ ان کے علاوہ دو اور فرشتے ہیں جو انسان کی حفاظت و نگرانی پر مقرر ہیں۔ ان میں سے ایک اس کے آگے اور ایک اس کے پیچھے رہتا ہے۔ گویا کہ وہ ہر آن چار فرشتوں کے درمیان رہتا ہے۔ دن کے فرشتے اور ہوتے ہیں اور رات کے اور۔ صحیح حدیث میں ہے کہ ان فرشتوں کی باری صبح اور عصر کے وقت تبدیل ہوتی ہے۔ اس حقیقت کے اظہار سے مقصد یہ ہے کہ انسان ہر آن اللہ تعالیٰ کی نگرانی اور حفاظت میں رہتا ہے اور اس کی کوئی حرکت اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ف 14۔ یعنی جب تک نیکی کی بجائے برائی اور اطاعت کی بجائے نافرمانی نہ کرنے لگیں البتہ جب وہ ایسا کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ ان سے اپنی نعمت چھین لیتا ہے اور ان پر اپنا عذاب نارمل کرتا ہے۔ واضح رہے کہ یہاں قوموں کی تباہی کا قانون بیان کیا گیا ہے افراد کا نہیں۔ کسی قوم کی اچھی یابری حالت کا تعین اس لحاظ سے کیا جائے گا کہ آیا اس میں اچھے لوگوں کا غلبہ ہے یا برے لوگوں کا ؟ رہے افراد تو یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک شخص گناہ کرے تبھی اس پر عذاب نازل ہو بلکہ ایک بے گناہ شخص دوسروں کے گناہ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ صحابہ (رض) نے عرض کیا ” اے اللہ کے رسولﷺ! کیا ہم نیک لوگوں کے رہنے کے باوجود ہلاک ہوسکتے ہیں۔ فرمایا :” ہاں جب برائی بہت ہوجائے۔ (از فتح تقدیر)۔ ف 1۔ چاہے وہ کوئی پیر ہو یا بزرگ یا بت یا جن یا فرشتہ۔