فَلَمَّا أَن جَاءَ الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَىٰ وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا ۖ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
جب خوشخبری دینے والے نے پہنچ کر ان کے منہ پر وہ کرتا ڈالا اسی وقت پھر بینا ہوگئے (١) کہا! کیا میں تم سے نہ کہا کرتا تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے (٢)۔
ف 10۔ مفسرین (رح) کا بیان ہے کہ جب قافلہ کنعان کے قریب پہنچا، تو سب سے بڑے بھائی یہودا نے کہا ” میں ہی ابا جان کے پاس یوسف ( علیہ السلام) کا خون سے بھرا ہوا کرتا لے کر گیا تھا۔ لہٰذا آج تم مجھی کو یہ کرتا لے کر آگے جانے دو، تاکہ انہیں اسی طرح خوش کروں جس طرح اس دن رنجیدہ کیا تھا۔ (فتح القدیر) موضح میں ہے کہ حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے کرتا بھیجا اپنے غلام کے ہاتھ اس نے آکر کرتا منہ پر ڈالا اور خوشخبر دی اس وقت آنکھیں کھل گئیں۔ ف 11۔ مثلاً یہ کہ یوسف ( علیہ السلام) زندہ ہے اور اللہ تعالیٰ اسے ضرور واپس لائے گا، یا یہ کہ مجھے یوسف ( علیہ السلام) کی خوشبو آرہی ہے۔ (ابن کثیر)۔