فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُّزْجَاةٍ فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّ اللَّهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِينَ
پھر جب یہ لوگ یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچے (١) تو کہنے لگے کہ اے عزیز! ہم کو اور ہمارے خاندان کو دکھ پہنچا ہے (٢) ہم حقیر پونجی لائے ہیں پس آپ ہمیں پورے غلے کا ناپ دیجئے (٣) اور ہم پر خیرات کیجئے (٤) اللہ تعالیٰ خیرات کرنے والوں کو بدلہ دیتا ہے۔
ف 9۔ یعنی ہماری یہ پونچی اس قابل نہیں ہے کہ کوئی ہمیں اس کے بدلے غلہ دے سکے۔ تاہم اگر آپ ہم پر احسان فرمائیں کہ اس کی قیمت کا جتنا غلہ بنتا ہے اس سے زیادہ دے دیں یا اس کے ناقابلِ قبول ہونے سے چشم پوشی فرمائیں تو یہ آپ کا ہم پر صدقہ ہوگا۔ کہتے ہیں کہ اب کی بار وہ اون، پنیر وغیرہ لائے تھے۔ یہ حال دیکھ کر حضرت یوسف ( علیہ السلام) کو رحم آگیا اور حقیقتِ حال ظاہر کردی۔ کذافی الموضح۔ (روح)۔