قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ عَسَى اللَّهُ أَن يَأْتِيَنِي بِهِمْ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
(یعقوب علیہ السلام) نے کہا یہ تو نہیں، بلکہ تم نے اپنی طرف سے بات بنا لی (١) پس اب صبر ہی بہتر ہے۔ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو میرے پاس ہی پہنچا دے (٢) وہی علم و حکمت والا ہے۔
ف 1۔ یعنی جب بڑے بھائی کی تجویز کے مطابق باقی بھائیوں نے کنعان پہنچ کر اپنے والد حضرت یعقوب ( علیہ السلام) سے یہ سب کچھ بیان یا تو انہوں نے کہا۔ (وحیدی)۔ ف 2۔ یہ جو کہتے ہو کہ بنیامین نے چوری کی اور وس اس کی سزا میں گرفتار کرلیا گیا، صرف یہی بات نہیں ہے کہ بلکہ اس میں تمہاری تسویل نفسانی کو بھی کچھ دخل ہے۔ وہ یہ کہ تم نے بنیامین کے غلام بنائے جانے کا خود ہی فتویٰ دیا اور پھر اس کے بھائی پر بھی چوری کی تہمت لگائی وغیرہ۔ (از روح)۔ ف 3۔ صبر جمیل (عمدہ صبر) سے مراد وہ صبر ہے جس میں انسان اللہ تعالیٰ کی مرضی پر مطمئن اور قانع ہو اور بندوں سے کوئی گلہ شکوہ نہ کرے اور نہ جزع و فزع سے کام لے۔ (دیکھئے آیت 81)۔ ف 4۔ یعنی یوسف ( علیہ السلام)، بنیامین اور بڑے بھائی کو جو شرمندگی کے مارے مصر میں رہ گیا تھا۔ (روح) ف 5۔ اب کی بار انہوں نے بے شک سچ کہا تھا مگر پہلے کی بے اعتباری کی وجہ سے حضرت یعقوب نے بیٹوں کا اعتبار نہ کیا مگر حضرت یعقوب ( علیہ السلام) اس میں سچے بھی تھے کہ بیٹوں کی بنائی ہوئی بات تھی حضرت یوسف ( علیہ السلام) بھی تو آخر بیٹے ہی تھے۔ (کذافی الموضح)۔