ارْجِعُوا إِلَىٰ أَبِيكُمْ فَقُولُوا يَا أَبَانَا إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ وَمَا شَهِدْنَا إِلَّا بِمَا عَلِمْنَا وَمَا كُنَّا لِلْغَيْبِ حَافِظِينَ
تم سب والد صاحب کی خدمت میں واپس جاؤ اور کہو کہ ابا جی! آپ کے صاحب زادے نے چوری کی اور ہم نے وہی گواہی دی تھی جو ہم جانتے تھے (١) ہم کچھ غیب کی حفاظت کرنے والے نہ تھے (٢)۔
ف 16۔ یعنی ہم نے جو بنیامین کے چور ہونے کو تسلیم کرلیا وہ اس بنا پر کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے چوری کا کٹورا اس کے سامان سے نکلتا دیکھا یا ہم نے جو عزیز مصر۔ یوسف ( علیہ السلام)۔ کو مسئلہ بتایا کہ چور کی سزا یہ ہے کہ اسے غلام بنا لیا جائے تو وہ آپ کی اور آپ کے باپ دادا ہی کی شریعت کے مطابق تھا۔ (از وحیدی)۔ ف 17۔ کہ بنیامین مصر میں جا کر چوری کرے گا۔ ورنہ ہم اسے اپنے ساتھ کیوں لے جاتے یا آپ کو یہ پختہ عہد کیوں دیتے کہ اسے اپنے ساتھ ضرور واپس لائیں گے۔ (کذافی الروح)۔