وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ يُغْنِي عَنْهُم مِّنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ إِلَّا حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا ۚ وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
جب وہ انھیں راستوں سے جن کا حکم ان کے والد نے انھیں دیا تھا گئے۔ کچھ نہ تھا کہ اللہ نے جو بات مقرر کردی ہے وہ اس سے انھیں ذرا بھی بچا لے۔ مگر یعقوب (علیہ السلام) کے دل میں ایک خیال پیدا ہوا جسے اس نے پورا کرلیا (١) بلاشبہ وہ ہمارے سکھلائے ہوئے علم کا عالم تھا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (٢)
ف 1۔ یعنی اس سر الٰہی (تقدیر) کی حقیقت کو نہیں جانتے اور اپنی تدبیر پر نازاں رہتے ہیں۔ یا پھر اللہ پر بھروسا کرنے کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ سرے سے کوئی تدبیر اختیار ہی نہ کی جائے جیسا کہ بعض متاخرین متصوفہ سے منقول ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت یعقوب ( علیہ السلام) نے اگر تدبیر اور توکل کے مفہوم کو صحیح طور پر سمھے کر اپنے بیٹوں کو نصیحت کی تھی تو وہ دراصل ہماری اس تعلیم کا نتیجہ تھا جو ہم نے اسے دی تھی یعنی بذریعہ وحی کے۔ (کذافی الروح) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں : تقدیر پھر بھی ان پر آگئی۔ دفع نہ ہوئی، سوجن کو علم ہے ان کو تقدیر کا یقین اور اسباب کا بچائو دونوں ہوسکتے ہیں۔ اور بے علم سے ایک ہی تو دوسرا نہ ہو۔ (۔۔)