قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَكُمْ حَتَّىٰ تُؤْتُونِ مَوْثِقًا مِّنَ اللَّهِ لَتَأْتُنَّنِي بِهِ إِلَّا أَن يُحَاطَ بِكُمْ ۖ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللَّهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ وَكِيلٌ
یعقوب (علیہ السلام) نے کہا! میں تو اسے ہرگز ہرگز تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک کہ تم اللہ کو بیچ میں رکھ کر مجھے قول و قرار نہ دو کہ تم اسے میرے پاس پہنچا دو گے، سوائے اس ایک صورت کے کہ تم سب گرفتار کر لئے جاؤ (١) جب انہوں نے پکا قول قرار دے دیا تو انہوں نے کہا کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں اللہ اس پر نگہبان ہے۔
ف 6۔ وہ سب سن رہا ہے لہٰذا جس نے خیانت اور بدعہدی کی وہ اس کے ہاں سخت سزا کا مستحق قرار پائے گا۔ یا ہم جو کہہ رہے ہیں اسے پورا کرنا اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ حضرت یعقوب ( علیہ السلام) نے یہ کہہ کر گویا ایک طرف ظاہری اسباب کے اعتبار سے وثوق حاصل کرلیا اور دوسری طرح بھروسا اللہ تعالیٰ پر کیا اور اللہ پر توکل کا صحیح مطلب بھی یہی ہے۔ (کذافی الموضح)۔