قَالَ اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ ۖ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ
(یوسف) نے کہا آپ مجھے ملک کے خزانوں پر معمور کر دیجئے (١) میں حفاظت کرنے والا اور باخبر ہوں (٢)
ف 5۔ لفظ ” خزائن الارض“ (زمین کے خزانے) سے مراد روپیہ اور غلوں کے خزانے نہیں ہیں بلکہ سلطنت کے تمام ذرائع آمدنی و پیداوار ہیں۔ قرآن حکیم میں خزائن کا لفظ عموماً اسی معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ ارشاد ہے ” وللہ خزائن السموات والارض“۔ مطلب یہ ہے کہ جب حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے دیکھا کہ بادشاہ کی نگاہ میں ان کی قدر و منزلت بڑھ گئی ہے اور وہ انہیں ہر طرح اختیارات سونپنے کو تیار ہے تو اپنی اہلیت پر اعتماد کرتے ہوئے یہ پیشکش مناسب سمجھی کہ سلطنت کے تمام ذرائع آمدنی و پیداوار میرے حولاے کر دئیے جائیں اور جب انسان کو اپنی اہلیت پر اعتماد و یقین ہو اور کوئی دوسراشخص قومی امانت کا بوجھ نہ اٹھا سکتا ہو تو اپنے آپ کو عہدہ کے لئے پیش بھی کرسکتا ہے۔ (ابن کثیر)۔ بلکہ آئندہ آیات (100۔101) سے تو معلوم ہوتا ہے کہ آخر کار مصر میں حضرت یوسف ( علیہ السلام) ہی تخت نشین ہوگئے تھے اور پھر حضرت یوسف ( علیہ السلام) اللہ کے نبی و تھے اس لئے ملک کے تمام اختیارات پر قبضہ ان کے لئے ضروری تھا تاکہ توحید کی تبلیغ و اشاعت پر قبضہ ان کے لئے ضروری تھا تاکہ توحید کی تبلیغ و اشاعت اور شرک کا استیصال کرسکیں۔