وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ
میں اپنے نفس کی پاکیزگی بیان نہیں کرتا (١) بیشک نفس تو برائی پر ابھارنے والا ہی ہے (٢) مگر یہ کہ میرا پروردگار ہی اپنا رحم کے (٣) یقیناً میرا رب پالنے والا بڑی بخشش کرنے والا اور بہت مہربانی فرمانے والا ہے۔
ف 1۔ تو نفس مطیع ہوجاتا ہے اور برے کام کی خواہش نہیں کرتا۔ مطلب یہ ہے کہ برائی سے میرا بچ نکلنا اپنے بل ہوتے پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے تھا۔ ” ما“ کے مصدر یہ ہونے کی صورت میں مستثنیٰ منقطع ہوگا اور مصدر یہ ظرفیہ ہونے کی صورت میں متصل۔ (کذافی الروح)۔ ف 2۔ بعض مفسرین (رح)۔ جیسے ابنی تیمیہ (رح) اور ابن کثیر۔ نے ” ذلک لیعلم“ سے ” ان ربی غفور رحیم“ کو بھی عزیز مصر کی بیوی ہی کا کلام قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ یہی انسب اور اشھر سے اور سیاق کلام سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ اس صورت میں گویا عزیزِ مصر کی بیوی کنا یہ چاہتی ہے کہ میں نے پیٹھ پیچھے اپنے خاوند کی کوئی بڑی خیانت نہیں کی بیشک میں نے یوسف ( علیہ السلام) کو پھسلانا چاہا تھا مگر کامیاب نہ ہوسکی۔ ہاں میں اپنے آپ کو پاک باز قرار نہیں دیتی مجھ سے جتنی غلط ہوئی اور اس کا قرار و اعتراف کرتی ہوں۔ نفس کی شرارتوں سے تو وہی مھفوظ رہ سکتا ہے جس پر اللہ کی خاص رحمت ہو۔