سورة یوسف - آیت 53

وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

میں اپنے نفس کی پاکیزگی بیان نہیں کرتا (١) بیشک نفس تو برائی پر ابھارنے والا ہی ہے (٢) مگر یہ کہ میرا پروردگار ہی اپنا رحم کے (٣) یقیناً میرا رب پالنے والا بڑی بخشش کرنے والا اور بہت مہربانی فرمانے والا ہے۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 1۔ تو نفس مطیع ہوجاتا ہے اور برے کام کی خواہش نہیں کرتا۔ مطلب یہ ہے کہ برائی سے میرا بچ نکلنا اپنے بل ہوتے پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے تھا۔ ” ما“ کے مصدر یہ ہونے کی صورت میں مستثنیٰ منقطع ہوگا اور مصدر یہ ظرفیہ ہونے کی صورت میں متصل۔ (کذافی الروح)۔ ف 2۔ بعض مفسرین (رح)۔ جیسے ابن تیمیہ (رح) اور ابن کثیر۔ نے ” ذَٰلِكَ لِيَعۡلَمَ “ سے ” إِنَّ رَبِّي غَفُورٌرَّحِيم“ کو بھی عزیز مصر کی بیوی ہی کا کلام قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ یہی انسب اور اشھر سے اور سیاق کلام سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ اس صورت میں گویا عزیزِ مصر کی بیوی کنا یہ چاہتی ہے کہ میں نے پیٹھ پیچھے اپنے خاوند کی کوئی بڑی خیانت نہیں کی بیشک میں نے یوسف (علیہ السلام) کو پھسلانا چاہا تھا مگر کامیاب نہ ہوسکی۔ ہاں میں اپنے آپ کو پاک باز قرار نہیں دیتی مجھ سے جتنی غلطی ہوئی هے اس کاا قرار و اعتراف کرتی ہوں۔ نفس کی شرارتوں سے تو وہی محفوظ رہ سکتا ہے جس پر اللہ کی خاص رحمت ہو۔