وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَىٰ رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ ۚ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ
اور بادشاہ نے کہا یوسف کو میرے پاس لاؤ (١) جب قاصد یوسف کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا، اپنے بادشاہ کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا حقیقی واقعہ کیا ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے (٢) تھے؟ ان کے حیلے کو (صحیح طور پر) جاننے والا میرا پروردگار ہی ہے۔
ف 5۔ یعنی جب ساقی نے جا کر تعبیر بتائی تو بادشاہ نے کہا۔ ف 6۔ وہی قصہ یاد دلایا جس سے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کا مقصد یہ تھا کہ بادشاہ کو میرے مقدمہ کی تحقیق کرنی چاہیے تاکہ سب کے سامنے میرا پاک دامن اور بے قصور ہنا پوری طرح واضح ہوجائے۔ معلوم ہوا کہ مواقع تہمت سے بچنا بھی واجب ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا، من کان یومن باللہ والیوم الاخر فلا یقضن مواقف التھم۔ کہ جس شخص کا اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان ہے اسے اتہام کی جگہوں سے دور رہنا چاہیے۔ صحیح مسلم میں حضرت انس سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنی کسی بیوی کے پاس کھڑے تھے کہ وہاں سے ایک شخص گزرا، آنحضرتﷺ نے اسے بلا کر فرمایا :” یہ میری بیوی ہے“۔ اس نے عرض کی اللہ کے رسول ! آپﷺ پر بدگمانی کیسے ہوسکتی ہے؟ اس پر آنحضرت نے فرمایا : ان الشیطان یجری من ابن ادم معجری الدم (روح) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی و نے (حضرت یوسف ( علیہ السلام) کی بلند ہمتی اور عقلمندی کی داد دیتے ہوئے) تواضعا فرمایا : اگر میں اتنی مدت جیل میں ٹھہرتا جتنی مدت یوسف ( علیہ السلام) ٹھہرے تو بادشاہ کے بلانے پر چلنے کو تیار ہوجاتا۔ (ابن کثیر)۔