وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِن مِّصْرَ لِامْرَأَتِهِ أَكْرِمِي مَثْوَاهُ عَسَىٰ أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا ۚ وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَىٰ أَمْرِهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
مصر والوں میں سے جس نے اسے خریدا تھا اس نے اپنی بیوی (١) سے کہا کہ اسے بہت عزت و احترام کے ساتھ رکھو، بہت ممکن ہے کہ یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا اسے ہم اپنا بیٹا ہی بنا لیں، یوں ہم نے مصر کی سرزمین پر یوسف کا قدم جما دیا (٢)، کہ ہم اسے خواب کی تعبیر کا کچھ علم سکھا دیں۔ اللہ اپنے ارادے پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ بے علم ہوتے ہیں۔
ف 8۔ قرآن نے اس شخص کے نام اور عہدے کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ البتہ آگے چل کر مصر کی عورتوں نے ” عزیز“ کے لقب سے اس کا ذکر کیا ہے اور یہی لقب بعد میں حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص مصر کے بادشاہ کا وزیراعظم تھا۔ بائیبل میں ہے کہ وہ بادشاہ کے باڈی گارڈوں کا افسر اور جیل خانوں کا منتظم تھا۔ اس کی بیوی کے نام ” زلیخا“ کا بھی قرآن نے کہیں ذکر نہیں کیا البتہ بعض مفسرین نے یہ نام لکھا ہے اور وہ بھی غالباً اسرائیلی روایات پر اعتماد کرتے ہوئے۔ کیونکہ یہود کے تلمود میں اس کا اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے۔ بعض مفسرین (رح) نے اس کا نام ” راعیل“ بھی لکھا ہے۔ کما ھو مروی عن مجاھد۔ ف 9۔ یعنی جیسے اسے پہلے بھائیوں کے شر سے بچایا اور کنویں سے نکلوایا، اسی طرح…(شوکانی)۔ ف 10۔ مصر میں عزیز مصر (بادشاہ کے وزیر) نے اسے خرید لیا۔ اس طرح مصر میں حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے قدم مضبوط ہوگئے اور ان کو امتیاز و مرتبہ حاصل ہوگیا پھر ان کی وجہ سے بنی اسرائیل وہاں آباد ہوگئے اور یہ بھی منظور تھا کہ سرداروں کی صحبت دیکھیں تارمزو اشارہ سمجھنے کا سلیقہ کمال پکڑیں اور علم خدائی پورا پاویں۔ (از موضح)۔ ف 11۔ شاہ صاحب کا ترجمہ ہے ” اور اللہ جیت رہتا ہے“۔ یعنی بھائیوں نے چاہا کہ ان کو گرادیں اسی میں یہ چڑھ گئے۔ (موضح)۔ ف 12۔ کہ ہر قسم کا ختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اس واقعہ میں تقدیر الٰہی یہ تھی کہ مصر میں یوسف ( علیہ السلام) کو غلبہ حاصل ہو مگر اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کی حکمتوں سے آگاہ نہیں۔