وَجَاءَتْ سَيَّارَةٌ فَأَرْسَلُوا وَارِدَهُمْ فَأَدْلَىٰ دَلْوَهُ ۖ قَالَ يَا بُشْرَىٰ هَٰذَا غُلَامٌ ۚ وَأَسَرُّوهُ بِضَاعَةً ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَعْمَلُونَ
اور ایک قافلہ آیا اور انہوں نے اپنے پانی لانے والے کو بھیجا اس نے اپنا ڈول لٹکا دیا، کہنے لگا واہ واہ خوشی کی بات ہے یہ تو ایک لڑکا ہے (١) انہوں نے اسے مال تجارت قرار دے کر چھپا لیا (٢) اور اللہ تعالیٰ اس سے باخبر تھا جو وہ کر رہے تھے۔
ف 4۔ حضرت یوسف ( علیہ السلام) اس کی رسی سے لٹ گئے اور اوپر آگئے۔ ف 5۔ ان سے یہ نہیں کہا کہ یہ لڑکا ہمیں کنویں سے ملا ہے بلکہ یہ کہا کہ اس کنویں کے مالکوں نے ہمیں یہ لڑکا اس لئے دیا ہے کہ اسے کہیں لے جا کر فروخت کردیں۔ اس صورت میں ” اسروہ بضاعۃ“ میں فاعل کی ضمیر سقاء (وارد) کے لئے ہوگی۔ اور اگر اس کا مرجع حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے بھائی قرار دیئے جائیں تو اس جملہ کا مطلب یہ ہوگا کہ ” یوسف کے بھائیوں نے اس کے پیسے کھرے کرنے کے لئے کنویں میں چھپائے رکھا اس خیال سے کہ اگر کوئی قافلہ اسے نکالے گا تو اس سے کہیں گے یہ تو ہمارا غلام ہے جو کئی روز ہوئے ہمارے ہاں سے بھاگ آیا تھا پھر اسے اس کے ہاتھ فروخت کردیں گے۔ مگر آیت کے یہ دونوں مفہوم مبنی بر تکلف ہیں اور دوسرا مفہوم تو اسرائیلی روایات سے ماخوز ہے اور بائیبل کے بیان کے مطابق ہے۔ آیت کا سیدھا سادہ مفہوم یہ ہے کہ قافلہ والوں نے اسے پونچی سمجھ کر لوگوں سے چھپا لیا تاکہ ارد گرد کے رہنے والوں میں کوئی شخص اسے ان کے پاس دیکھ کر یہ دعویٰ نہ کردے کہ یہ ہمارا لڑکا ہے۔