قَالُوا يَا شُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ ۖ إِنَّكَ لَأَنتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ
انہوں نے جواب دیا کہ اے شعیب! کیا تیری صلاۃ (١) تجھے یہی حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادوں کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور ہم اپنے مالوں میں جو کچھ چاہیں اس کا کرنا بھی چھوڑ دیں (٢) تو تو بڑا ہی با وقار اور نیک چلن آدمی ہے (٣)۔
ف 5۔ یعنی کیا تو اپنی نماز کا دائرہ عمل اس قدر وسیع سمجھتا ہے کہ دوسروں کے مذہبی و مالی معاملات میں بھی دخل دینے لگا ہے۔ ہماری مرضی ہے جس کی چاہیں پوجا اور جس کی چاہیں بندگی کریں اور یہ مال جو ہمارے اپنے ہیں ان میں جس طرح چاہیں تصر ف کریں۔ جائز ناجائز جیسے چاہیں کمائیں۔ کوئی ہمیں کیوں ٹوکے؟ ف 6۔ پھر تو ایسی نادانی کی باتیں کرنے لگا ہے؟ یا بس تو ہی ایک عقلمند اور نیک چلن آدمی رہ گیا ہے۔ باقی ہم اور ہمارے باپ دادا جائل اور احمق ہی رہے ! یہ بات انہوں نے حضرت شعیب ( علیہ السلام) سے استہزا اور تمسخر کے انداز میں کہی۔ (ابن کثیر) شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ” جاہلوں کا دستور ہے کہ نیکیوں کے کام آپ نہ کرسکیں تو انہیں کو لگیں چڑانے، یہی خصلت ہے کفر کی۔