وَجَاءَهُ قَوْمُهُ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ وَمِن قَبْلُ كَانُوا يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ ۚ قَالَ يَا قَوْمِ هَٰؤُلَاءِ بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَلَا تُخْزُونِ فِي ضَيْفِي ۖ أَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدٌ
اور اس کی قوم دوڑتی ہوئی اس کے پاس آپہنچی، وہ تو پہلے ہی سے بدکاریوں میں مبتلا تھی (١) لوط نے کہا اے قوم کے لوگو! یہ میری بیٹیاں جو تمہارے لئے بہت ہی پاکیزہ ہیں (٢) اللہ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں کے بارے میں رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں ایک بھی بھلا آدمی نہیں (٣)۔
ف 2۔ ” بَنَاتِي “ (بیٹیوں) سے مراد ان لوگوں کو اپنی عورتیں ہیں کیونکہ نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے اور قوم کی ساری عورتیں نبی کی بیٹیاں ہوتی ہیں جیسا کہ نبی ﷺ کے بارے میں ارشاد ہے۔İٱلنَّبِيُّ أَوۡلَىٰ بِٱلۡمُؤۡمِنِينَ مِنۡ أَنفُسِهِمۡۖ وَأَزۡوَٰجُهُۥٓ أُمَّهَٰتُهُمۡĬ (احزاب آیت 6)۔ یہی تفسیر راجح ہے گو بعض نے لوط (علیہ السلام) کی اپنی بیٹیاں بھی مرادلی ہیں کہ ان سے شادی کرلو۔ (کمافی الموضح)۔