وَيَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۚ وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ إِنَّهُم مُّلَاقُو رَبِّهِمْ وَلَٰكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ
میری قوم والو! میں تم سے اس پر کوئی مال نہیں مانگتا (١) میرا ثواب تو صرف اللہ تعالیٰ کے ہاں ہے نہ میں ایمان داروں کو اپنے پاس سے نکال سکتا ہوں (٢) انھیں اپنے رب سے ملنا ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جہالت کر رہے ہو (٣)۔
ف 9۔ جیسے تم چاہتے ہو کہ جن لوگوں نے میری پیروی اختیار کی ہے وہ چونکہ نچلے طبقے کے لوگ ہیں اس لئے انہیں اپنے پاس سے دھکے دے کر نکال دوں۔ یہ بھی اسی قسم کا مطالبہ تھا جو قریش کے سردار نبی ﷺ سے کیا کرتے تھے۔ (از شوکانی)۔ ف 10۔ یعنی میں اگر ان کو ستائوں یا اپنی مجلس سے نکال دوں تو وہ اللہ تعالیٰ سے اپنا انصاف چاہیں گے اس کا میں کیا جواب دوں گا یا یہ کہ وہ لوگ تو اللہ کے ہاں عزت پالیں گے اور اس بارگاہ عالی میں ایمان و عمل کے باعث ان کو بار ملے گا۔ پھر تمہارے ذلیل سمجھنے سے کیا ہوتا ہے۔ یہ ان کے دوسرےاعتراض کا جواب ہے کہ آپﷺ (نوح علیہ السلام) کے متبع ہمارے رذالے هیں۔ (رازی)۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : کافروں نے مسلمانوکو رذال ٹھہرایا اور چاہا کہ ان کو ہانک دو تو ہم تمہارے پاس بیٹھیں اور بات سنیں۔ سو فرمایا کہ دل کی بات اللہ تحقیق کرے گا جب اسے ملیں گے۔ میں اگر مسلمانوں کو ہانکوں تو اللہ سے کون چھڑوائے مجھ کو اور رذالا ٹھہرایا اس پر کہ وہ کسب کرتے تھے۔ کسب سے بہتر کمائی نہیں اس واسطے فرمایا کہ تم جاہل ہو۔ (کذافی الروح)۔ ف 11۔ یعنی کسی بات کو بھی صحیح طور پر نہیں سمجھتے اور تمہاری نظر صرف ظواہر پر ہے اور انجام پر غور نہیں کرتے۔ (کبیر۔ روح) بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ فلاں شخص نیچ قوم کا ہے اس لئے اسے اپنے پاس بیٹھنے نہ دو؟ اللہ کے نزدیک اسی شخص کی عزت ہے جو ایماندار اور پرہیز گار ہے۔ بے ایمان اور بدکار کتنے ہی شریف خاندان کا ہو اللہ کے نزدیک چوہڑے اور چمار سے بھی بدتر ہے۔ (وحیدی)۔