فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ مَا نَرَاكَ إِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ وَمَا نَرَىٰ لَكُمْ عَلَيْنَا مِن فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّكُمْ كَاذِبِينَ
اس کی قوم کے کافروں کے سرداروں نے جواب دیا کہ ہم تو تجھے اپنے جیسا انسان ہی دیکھتے ہیں (١) اور تیرے تابعداروں کو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ واضح طور پر سوائے نیچ (٢) لوگوں کے (٣) اور کوئی نہیں جو بے سوچے سمجھے (تمہاری پیروی کر رہے ہیں) ہم تو تمہاری کسی قسم کی برتری اپنے اوپر نہیں دیکھ رہے، بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھ رہے ہیں۔
ف 2۔ مکہ کے لوگ بھی آنحضرت ﷺ کے بارے میں یہی بات کہا کرتے تھے کہ جو شخص ہاری طرح کا بشر ہو جو کھاتا پیتا، بازاروں میں چلتا پھرتا، سوتا جاگتا اور بال بچے رکھتا ہو آخر وہ اللہ کا رسول ﷺ کیسے ہوسکتا ہے۔ (دیکھئے سورۃ قرآن آیت 7) مطلب یہ ہے کہ رسالت اور بشریت میں تضاد ہے اور یہ کہ ان دونوں کا ایک شخص میں اجتماع محال ہے۔ ف 3۔ یعنی اس وہ سے بھی آپو کو ہم پر کوئی فضیلت نہیں ہے کہ کچھ لوگ آپو کے متبع ہوگئے ہیں کیونکہ وہ تو ہمارے رذالے ہیں جن کا کسی شخص کی اتباع کرنا کچھ اہمیت نہیں رکھتا۔ بعینہ یہی بات مکہ کے کھاتے پیتے سردار نبی ﷺ کے بارے میں کہا کرتے کہ ان کی پیروی ہماری قوم کے غلام اور نچلے طبقے کے لوگ کرتے ہیں۔ (دیکھئے آیت 45 تا 45)۔ ف 4۔ یعنی بلا سوچے سمجھے۔ یا وہ اس قسم کے لوگ ہیں جو گہری سمجھ کے مالک نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر غوروفکر کرتے اور ذرا تامل سے کام لیتے تو تمہاری اتباع نہیں کرسکتے تھے۔ اگر یہ (بادی الرای) ’ نزاک“ کی ظرف ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ ان کی رذالت بالکل واضح ہے۔ (کذا فی الرضا)۔ ف 5۔ یعنی تم لوگون کو۔ یہ خطاب حضرت نوح ( علیہ السلام) اور ان کے ماننے ولوں سے ہے۔ ف 6۔ تم جو یہ کہتے ہو کہ نوح (علیہ السلام) خد اکے بھیجے ہوئے رسول ہیں۔