أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ۖ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ
ہاں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں سوائے آگ کے اور کچھ نہیں اور جو کچھ انہوں نے یہاں کیا ہوگا وہاں سب اکارت ہے اور جو کچھ اعمال تھے سب برباد ہونے والے ہیں (١)
ف 7۔ یہ آیتیں کفار اور مشرکین کے بارے میں ہیں کیونکہ بعد میں لیس لھم الا النار ہے کہ ان کے لئے آخرت میں آگ ہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو کفار یہاں دنیا طلبی کے لئے صدقہ خیرات وغیرہ نیک عمل کرتے ہیں جن کا تعلق رفاہِ عامہ سے ہے انہیں ان کاموں کا بدلہ دنیا میں ہی پورا پورا دے دیا جاتا ہے لیکن یہ بدلہ ملنا مشئیت الٰہی پر موقوف ہے۔ جیسا کہ دوسری آیت میں ہے۔ عجلنا لہ ما نشاء لمن نرید (سورہ اسراء آیت 81) آخرت میں بعض کفار جیسے ابو طالب کے متعلق آیا ہے کہ اس کو ہلکا عذاب ہوگا تو یہ خاص طور پر آنحضرت ﷺ کے ساتھ نیکی کی وجہ سے ہے۔ ورنہ آخرت میں نیک عمل کی قبولیت کے لئے ایمان شرط ہے۔ علما تفسیر نے ان دو آیتوں کو عام بھی مانا ہے اور لکھا ہے کہ اس میں منافق اور ریاکار بھی شامل ہیں کہ ان کے عمل بھی آخرت میں اکارت جائیں گے۔ چنانچہ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن ایک شہید کو لایا جائے گا وہ کہے گا یا اللہ ! میں نے لڑتے لڑتے تیری راہ میں جان دے دی۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : تم جھوٹے ہو تم نے محض اس لئے جنگ کی تھی کہ لوگ تمہیں بہادر کہیں چنانچہ تمہیں یہ دلو مل گئی۔ پھر حکم ہوگا کہ اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر آگ میں ڈال دو۔ اس کے بعد آنحضرتﷺ نے ریاکارقاری اور ریاکار دولت مند کے متعلق بھی یہی بیان فرمایا۔ (مسلم)۔ واضح رے کہ اگر اس آیت کو عام رکھا جائے تو لیس لھم الا النار“ کی تاویل کی جائے گی کہ کفار اور منافقین کے لئے تو دائمی جہنم ہے مگر مسلمان گنہگار۔ سزا کے بعد جہنم سے نکل آئیں گے اور بعض کو اللہ تعالیٰ معاف بھی کردے گا اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے۔