وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۗ وَلَئِن قُلْتَ إِنَّكُم مَّبْعُوثُونَ مِن بَعْدِ الْمَوْتِ لَيَقُولَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ
اللہ ہی وہ ہے جس نے چھ دن میں آسمان و زمین کو پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا (١) تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے عمل والا کون ہے، (٢) اگر آپ ان سے کہیں کہ تم لوگ مرنے کے بعد اٹھا کھڑے کئے جاؤ گے تو کافر لوگ پلٹ کر جواب دیں گے یہ تو نرا صاف صاف جادو ہی ہے۔
ف 3۔ اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ کے کامل علم کا اثبات تھا اور اس آیت میں کمال قدرت کا بیان ہے۔ آسمان و زمین کی چھ دنوں میں تخلیق کے بارے میں دیکھئے سورۃ اعراف آیت 54۔ (کبیر) ف 4۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ آسمان و زمین کی تخلیق سے قبل اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا۔ (ابن کثیر) ابتداء آفرینش کے متعلق مختلف روایات آتی ہیں۔ صحیح اور مشہور روایات میں ہے کہ آنحضرت ﷺ سے سوال کیا گیا ہے کہ پہلے پہل خلق کی ابتدا کیسے ہوئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا : (كَانَ اللهُ قَبْلَ كُلِّ شَيْءٍ، وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ، وَكَتَبَ فِي اللَّوْحِ ذِكْرَ كُلِّ شَيْءٍ)کہ ہر چیز سے پہلے اللہ تھا اور اس کا عرش پانی پر تھا۔ اس نے لوح محفوظ میں ہر چیز کا ذکر لکھ دیا۔“ دوسری حدیث میں ہے کہ آسمان و زمین کی آفرینش سے پچاس ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی سب تقدیریں لکھ لی تھیں۔ (صحیح مسلم و بخاری) سنن کی بعض روایات میں ہے(أَيْنَ كَانَ رَبُّنَا قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ خَلْقَهُ؟)۔ خلق کی پیدائش سے قبل پروردگار کہاں تھا؟ اس کے جواب میں آنحضرتﷺ نے فرمایا (كَانَ فِي عَمَاءٍ، مَا تَحْتَهُ هَوَاءٌ، وَمَا فَوْقَهُ هَوَاءٌ)“۔ مگر امام رازی (رح) لکھتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور اس باب میں صرف مشہور حدیث سے ہی استدلال ہوسکتا ہے۔ (کبیر) پانی اور عرش کے بعد ” سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا۔“ یہی صحیح ہے اور ایک روایت میں ہے کہ سب سے پہلے عقل کو پیدا کیا مگر یہ روایت ضعیف ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ ایک دن آنحضرت ﷺنے ابتدء آفرینش کے متعلق خطبہ دیا جس میں ابتداء عالم سے لے کر قیام قیامت تک کی تمام چیزیں بیان کردیں۔“ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ابتداء آفرینش کے متعلق صحابہ (رض) سے جو آثار مروی ہیں وہ سب کے سب اسرایلیات سے نہیں لئے گئے۔ (احسن الفوائد)۔ ف 5۔ یعنی تم میں سے کون اس کے دئیے ہوئے اختیار اور قوت تمیز سے فائدہ اٹھا کر سیدھی راہ اختیار کرتا ہے اور کون غلط راہ پر چلتا ہے۔ احسن عمل یا عمل صالح وہ ہے جو ” خالص اللہ کے لئے ہو اور شریعت کے مطابق“۔ اگر ان دو شرطوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو وہ عمل باطل اور ضائع ہے۔ (ابن کثیر)۔