سورة ھود - آیت 6

وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کی روزیاں اللہ تعالیٰ پر ہیں (١) وہی ان کے رہنے سہنے کی جگہ کو جانتا ہے اور ان کے سونپے جانے (٢) کی جگہ کو بھی، سب کچھ واضح کتاب میں موجود ہے۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 1۔ پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت و احاطہ کا بیان تھا کہ انسان کے ظاہر اور پوشیدہ احوال کیا وہ تو دلوں کے خیالات تک سے واقف ہے۔ اس آیت میں اسی پر دلیل پیش کی ہے کہ ہر جاندار کو اللہ تعالیٰ کے ہاں سے روزی پہنچ رہی ہے۔ پھر اگر اللہ کا علم وسیع نہ ہوتا تو یہ روزی کا بندوبست کیسے ممکن تھا۔ (رازی)۔ اصل میں رزق کے تمام خزانے تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے مگر کسب کی حد تک انسان وسائل ِ رزق کو کام میں لاسکتا ہے بلکہ اس کا مکلف ہے۔ لیکن ان اسباب کو موثر نہ سمجھے بلکہ اصل بھروسا اللہ تعالیٰ پر ہو۔ اسی کا نام توکل ہے۔ مقصد یہ کہ رزق کے حصول کے لئے اسباب و وسائل کو کام میں لانا تو کل کے منافی نہیں ہے بلکہ حدیث میں ہے۔( ‌اعْقِلْهَا، ‌وَتَوَكَّلْ) کہ پہلے اونٹ کو گھٹنا باندھ دیجئے اور پھر اللہ پر تو کل کیجئے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے : ” کوئی متنفس اس وقت تک نہیں مرتا جب تک کہ اپنی عمر اور رزق جو اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا ہے پورا نہ کرے۔ لہٰذا تم کو چاہیے کہ کسب معاش کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور جائز طریقوں سے روزی حاصل کرو“۔ اور پھر یہ ذہن بھی غلط ہے کہ طلب و سعی کے بغیر رزق نہیں ملتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بہت سی مخلوق وہ ہے جن کو مباشرت اسباب کے بغیر رزق پہنچ رہا ہے۔ (روح)۔ ف 2۔ یہ بھی اسی دلیل کا تتمہ ہے۔ ” مُسۡتَقَر“ اور ” مُسۡتَوۡدَع“ کی تفسیر میں علما سے مختلف اقوال مروی ہیں۔ ذمین پر انسان چلتا پھرتا ہے آخر جہاں پہنچ کر اس کی مسیر کا منتہیٰ ہوگا وہ اس کا ” مستقر“ ہے اور پھر جہاں ٹھکانا کرتا ہے وہ ” مستودع“ ہے۔ (ابن کثیر) شاہ ولی اللہ (رح) لکھتے ہیں جو حالت انسان کے اختیاری رہنے سہنے کی ہے اسے اس کا ” مستقر“ کہا جائے گا اور اس سے قبل جو ٹھکانے (مقر) غیر اختیاری تھے جیسےصلب پدورحم مادر ان تمام اطوار کو اس کا ” مستودع“ کہا جائے گا۔ (فتح الرحمن) موضح میں ہے ” مستقر“ جہاں ٹھہرتا ہے یعنی بہشت ودوزخ۔ ” مستودع“ جہاں سونپا جاتا ہے اس کی قبر۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کا علم انسان کی اس زندگی پر بھی حاوی ہے اور موت کے بعد کے تمام حالات بھی اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔