وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ فَمَا اخْتَلَفُوا حَتَّىٰ جَاءَهُمُ الْعِلْمُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
اور ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانا رہنے کو دیا اور ہم نے انھیں پاکیزہ چیزیں کھانے کو دیں۔ سو انہوں نے اختلاف نہیں کیا یہاں تک کہ ان کے پاس علم پہنچ گیا (١) یقینی بات ہے کہ آپ کا رب ان کے درمیان قیامت کے دن ان امور میں فیصلہ کرے گا جن پر وہ اختلاف کرتے تھے۔
ف 11۔ یعنی ملک شام دیا کہ کوئی مخالف مند رہا۔ (موضح)۔ یعنی بلادِ مصر اور شام، بیت االمقدس اور ” غرقابی“ کے بعد بنی اسرائیل کا مصر پر مکمل قبضۃ ہوگیا۔ ابن کثیر)۔ مگر وہاں زیادہ عرصہ ٹھہرنے کا موقعہ نہیں ملا۔ ان کو حکم تھا کہ ملک شام عمالقہ سے فتح کرکے وہاں چلے جائو چنانچہ یوشع کے زمانہ میں ان فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا۔ (ابن کثیر۔ روح)۔ ف 12۔ یعنی اللہ کی کتاب تورات نازل ہوچکی اور اس میں بیان کردہ احکام کا انہیں پتا چل گیا۔ مطلب یہ ہے کہ آپس میں اختلاف اور تفرق کی وجہ یہ نہ تھی کہ ان کے پاس حقیقت کا علم نہ تھا بلکہ یہ سب کچھ انہوں نے جانتے بوجھتے شرارتِ نفس کی بنا پر کیا۔ بنی اسرائیل کے اختلافات کی داستان بہت طویل ہے۔ ف 13۔ وہاں معلوم ہوجائے گا کہ کون حق پر تھا اور کون باطل پر۔ پھر حق پرستوں کو اپنی نیکی کا انعام اور باطل پرستوں کو اپنی بدعملی کی سزا ملے گی۔