سورة یونس - آیت 68

قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۖ هُوَ الْغَنِيُّ ۖ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ إِنْ عِندَكُم مِّن سُلْطَانٍ بِهَٰذَا ۚ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

وہ کہتے ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے۔ سبحان اللہ! وہ تو کسی کا محتاج نہیں (١) اس کی ملکیت ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ (٢) تمہارے پاس اس پر کوئی دلیل نہیں۔ کیا اللہ کے ذمہ ایسی بات لگاتے ہو جس کا تم علم نہیں رکھتے۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 4۔ یہاں ان کے ایک اور غلط عقیدہ اور باطل خیال کی تردید کی ہے۔ مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے اور نصاریٰ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا کہتے۔ ان کے اس عقیدہ کی بنیاد بھی چونکہ محض ظن و تخمین پر تھی اس لئے یہاں ” ان یتبعون الالظن“ کے تحت اس کی بھی تردید فرمادی۔ (سید احمد حسن)۔ ف 5۔ یہ اس تردید کی دلیل ہے کہ اللہ کسی کا محتاج نہیں کہ اس کو بیٹے بیٹی کی ضرورت ہو۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ پھر اولاد کا حاصل کرنا، شہوت و لذت کو چاہتا ہے اور اولاد نہیں حاصل کرتا ہے جو فانی ہوتاکہ اس کے فنا ہونے کے بعد اولاد اس کی قائم مقام ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ازلی اور ابدی ہے اور شہوت و لذت سے پاک اور بالا۔ لہٰذا اس کی طرف اولاد کی نسبت سرے سے محال ہے۔ (رازی۔ شوکانی)۔ ف 6۔ دلیل سے ان کے عقیدہ کو رد کرنے کے بعد مزید انکار و توبیخ کے طور پر فرمایا کہ ان کے پاس اس کا قطعاً کوئی دلیل نہیں ہے۔ (کبیر) اس سے معلوم ہوا کہ ہر وہ بات جس کے ساتھ اس کی دلیل نہ ہوقابلِ التفات نہیں ہوتی۔ (شوکانی)۔ ف 7۔ نہایت مبالغہ کے ستھ ان کے زعم کی تردید ہے یعنی محض جہالت سے اللہ تعالیٰ پر بہتان تراشی کر رہے ہیں۔ (از شوکانی)۔