هُنَالِكَ تَبْلُو كُلُّ نَفْسٍ مَّا أَسْلَفَتْ ۚ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ ۖ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ
اس مقام پر ہر شخص اپنے اگلے کئے ہوئے کاموں کی جانچ کرلے گا (١) اور یہ لوگ اللہ کی طرف جو ان کا مالک حقیقی ہے لوٹائے جائیں گے اور جو کچھ جھوٹ باندھا کرتے تھے سب ان سے غائب ہوجائیں گے (٢)۔
ف 2۔ یعنی خوب جان لے گا اور مشاہدہ کرلے گا کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے اور اس کے اعمال کا اسے کیا بدلہ ملتا ہے۔ پس یہاں مجازاً اتبلا بمعنی انکشاف ہے۔ من قبیل اطلاق السبب علی المسبب۔ ف 3۔ مثلاً یہ کہ بت یا معبود اللہ کے مقرب ہیں اور یہ اللہ سے ہماری سفارش کریں گے تو ان کے سفارش لازماً قبول کی جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ مطلب یہ ہے کہ اس قسم کی تمام جھوٹی اور لغو باتیں ہوا ہوا جائینگی اور ان کی حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی۔ حضرت عبد اللہﷺ بن مسعود سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن ان لوگوں کے سامنے ان کے معبود لائے جائیں گے۔ وہ آگے آگے اور یہ ان کے پیچھے پیچھے چلیں گے یہاں تک کہ جہنم میں داخ (رح) ہوجائیں گے پھر نبی ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (در منشور) مگر اس حدیث پر یہ آیت اسی وقت شاہد بن سکتی ہے۔ جبکہ ” تبلو“ کی بجائے ” تتلو“ پڑھا جائے۔ ای تتبع کل نفس ما اسلفت کیونکہ قیامت کے روز جنت یا جہنم کی طرف انسان کا عمل اس کی رہنمائی کرے گا۔ (رازی)۔