إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعَامُ حَتَّىٰ إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَا أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلًا أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِيدًا كَأَن لَّمْ تَغْنَ بِالْأَمْسِ ۚ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
پس دنیاوی زندگی کی حالت تو ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے زمین کی نباتات، جن کو آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں، خوب گنجان ہو کر نکلی یہاں تک کہ جب وہ زمین اپنی رونق کا پورا حصہ لے چکی اور اس کی خوب زیبائش ہوگئی اور اس کے مالکوں نے سمجھ لیا کہ اب ہم اس پر بالکل قابض ہوچکے ہیں تو دن میں یا رات میں اس پر ہماری طرف سے کوئی حکم (عذاب) آپڑا سو ہم نے اس کو ایسا صاف کردیا (٣) کہ گویا کل وہ موجود ہی نہ تھی۔ ہم اس طرح آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے جو سوچتے ہیں۔
ف ١٠۔ یعنی یہ دنیا جس کی لذتوں میں بدمست ہو کر تم ہماری آیتوں کو جھٹلا رہے ہو، غیر ثابت اور جلد فنا ہوجانے میں اس کی مثال ایسی ہے… ف ١۔ یعنی اس سے فائدہ اٹھانے اور اس سے غلے، میوے اور سبزیاں اگانے کو ہمیں پوری قدرت حاصل ہے۔ ف ٢۔ یعنی پک کر زرد ہوگئی پھر کٹی یا کوئی فوج آپڑی کہ کچی کاٹ ڈالی یعنی موت ناگہانی آتی ہے۔ (از موضح)۔ ف ٣۔ یہی وہ انسانی زندگی کا ہے۔ روح پانی کی طرح آسمان سے اترتی ہے بدن اس سے مل کر خوب پھلتا پھولتا ہے جب جوانی پر آتا ہے، علم وہ ہنر سیکھتا ہے اور امید ہوجاتی ہے کہ چند روز جی کر مزے اڑائیں گے تو یکایک موت آتی ہے اور تمام امیدوں کو خاک میں ملا دیتی ہے اور ایسے معلوم ہوتے ہیں کانھالم تکن اسی لئے حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے روز اس شخص کو جو دنیا میں سب سے زیادہ خوشحال تھا آگ میں ایک غوطہ دے کر نکالا جائے گا پھر اس سے پوچھا جائے گا ” کیا تم نے کبھی خوشحالی دیکھی؟“ وہ جواب دے گا ” نہیں“ پھر اس شخص کو جو دنیا میں سب سے بدحال تھا، نعمت (جنت) میں غوطہ دے کر نکالا جائے گا پھر اس سے پوچھا جائے گا کیا تم نے کبھی بدحالی دیکھی؟ وہ جواب دے گا ” نہیں“۔ (ابن کثیر)۔ ف ٤۔ تاکہ ان پر غور کریں اور ان سے سبق لیں۔