هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا كُنتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِم بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِهَا جَاءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ ۙ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ لَئِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ
وہ اللہ ایسا ہے کہ تم کو خشکی اور دریا میں چلاتا ہے (١) یہاں تک کہ جب تم کشتی میں ہوتے ہو اور وہ کشتیاں لوگوں کو موافق ہوا کے ذریعے سے لے کر چلتی ہیں اور وہ لوگ ان سے خوش ہوتے ہیں ان پر ایک جھونکا سخت ہوا کا آتا ہے اور ہر طرف سے ان پر موجیں اٹھتی چلی آتی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ (برے) آگھرے (٢) (اس وقت) سب خالص اعتقاد کرکے اللہ ہی کو پکارتے ہیں (٣) کہ اگر تو ہم کو اس سے بچا لے تو ہم ضرور شکر گزار بن جائیں گے۔
ف ٧۔ اور اپنے تمام بتوں اور معبودوں کو بھول جاتے ہیں اور صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے آہ و زاری کرتے ہیں۔ (ابن کثیر)۔ ف ٨۔ یہ تو اللہ تعالیٰ نے مشرکین عرب کا حال بیان فرمایا مگر ہمارے زمانے کے بعض نام کے مسلمانوں کا حال اس سے بھی بدتر ہے ان پر جب کوئی بڑی مصیبت آتی ہے مثلاً دریا میں ڈوبنے یا آگ میں جلنے لگتے ہیں تو بھی شرک سے توبہ نہیں کرتے اور وہی ” یا خواجہ خضر“ یا علی مدد کا نعرہ لگاتے ہیں بلکہ مرتے اور ڈوبتے وقت بھی اللہ کو نہیں پکارتے۔ لاحول ولا قوہ الا باللہ۔ (ازوحیدی)