سورة یونس - آیت 21

وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُمْ إِذَا لَهُم مَّكْرٌ فِي آيَاتِنَا ۚ قُلِ اللَّهُ أَسْرَعُ مَكْرًا ۚ إِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور جب ہم لوگوں کو اس امر کے بعد کہ ان پر کوئی مصیبت پڑچکی ہو کسی نعمت کا مزہ چکھا دیتے ہیں (١) تو وہ تو فوراً ہی ہماری آیتوں کے بارے میں چالیں چلنے لگتے ہیں (٢) آپ کہہ دیجئے کہ اللہ چال چلنے میں تم سے زیادہ تیز ہے (٣) بالیقین ہمارے فرشتے تمہاری سب چالوں کو لکھ رہے ہیں۔

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف ٤۔ انہیں جھٹلاتے اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ (ابن کثیر)۔ ف ٥۔ اللہ کی چال سے مراد ہو سزا ہے جو وہ مشرکین کو ان کی مکاریوں اور چالبازیوں پر دیتا ہے اور وہ ہے اس کا انہیں ان کا باغیانہ روش پر چھوٹ دینا اور انہیں اپنے رزق اور نعمتوں سے نوازتے رہنا تاکہ وہ جی بھر کر اپنا نامہ اعمال سیاہ کرتے رہیں۔ ف ٦۔ یعنی جب تمہارا نامہ اعمال خوب سیاہ ہوجائے گا تو اچانک موت کا پیغام آجائے گا اور تم اپنے اعمال کا حساب دینے کے لئے دھر لئے جائو گے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : سختی کے وقت آدمی کی نظر اسباب سے اٹھ کر اللہ پر رہتی ہے جب کام بن گیا تو لگا اسباب پر نگاہ رکھنے۔ سو ڈرتا نہیں کہ اللہ پھر ایک اسباب کھڑا کردے۔ اسی تکلیف کا اس کے ہاتھ میں سب اسباب تیار ہیں۔ ایک اسی کی صورت آگے اور فرمائی۔ (موضح)۔