وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ فِيمَا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
اور تمام لوگ ایک ہی امت کے تھے پھر انہوں نے اختلاف پیدا کرلیا (١) اور اگر ایک بات نہ ہوتی جو آپ کے رب کی طرف سے پہلے ٹھہر چکی ہے تو جس چیز میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں ان کا قطعی فیصلہ ہوچکا ہوتا (٢)۔
ف 9۔ اس زمانے کے ملحد فلسفیوں اور تاریخ دانوں کے برعکس قرآن یہ بار بار اعلان کرتا ہے کہ انسانیت کی ابتداء کفر یا شرک سے نہیں بلکہ خالص توحید سے ہوئی۔ ابتدا میں تمام انسان ایک ہی دین۔ اسلام۔ رکھتے تھے اور ایک ہی ان کی ملت تھی لیکن آہستہ آہستہ انہوں نے اس دین سے انحراف کیا اور آپس میں اختلاف کرکے اپنی مرضی کے ادیان اور قوانین گھڑ لئے۔ (نیز دیکھئے بقرہ آیت 213) ف ١۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی یہ فیصلہ نہ کرلیا ہوتا کہ دنیا میں لوگوں کو مہلت دی جائے گی تاکہ اپنی عقل و فہم سے کام لے کر جس راستہ کو چاہیں اختیار کریں اور جس راستہ کو چاہیں چھوڑ دیں اور قیامت ہی کےدن انہیں ان کے اچھے یا برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا تو کبھی کا اللہ تعالیٰ حقیقت کو بے نقاب کرکے ان لوگوں کو پکڑ چکا ہوتا جو ایمان کا راستہ چھوڑ کر کفرو شرک کے راستہ پر چل رہے ہیں۔ (از ابن کثیر۔ قرطبی)۔